ہفتہ، 23 اگست، 2014

طب یونانی پر ایک سوال

سوال۔ مبادیات طب میں سے ارکان کی کوئی دلیل پیش کریں؟ جواب۔ طب میں کچھ چیزیں مان لینے سے تعلق رکھتی ہیں اگرچہ اسمیں دلائل سے بھی کام لیا ہے حکماء کرام نے چناچہ حکماء کرام فرماتے ہیں کہ تمام مرکبات کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر مرکب کو مادہ رطبہ کی ضرورت ہے کیونکہ ہر مرکب میں صورت کا پایا جانا اس بات پر دال ہے کہ جس نے اس صورت کو قبول کیا ہے وہ تر ضرو ہوگی ورنہ قابلیت صورت ناممکن یا دشوار ہوتی اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ رطوبت و تری اتنی نہیں جو بعجلت قبول کر کے اس صورت کو فوراً چوڑ دے ورنہ مرکبات کی صورتیں صدیوں کیوں باقی رہتیں پس معلوم ہوا کہ اس تری کو خشکی سے معتدل کیا گیا ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ مرکب میں صورت اس وقت تک نہیں چھپ سکتی جب تک کہ حرارت اس تر مادہ کو پکا کر صورت کے قبل نہ بنائے جیسا کہ آپ اطریفل معجون میں اسکا مشاہدہ کرتے ہیں مگر یہ بھی اس قدر نہ ہونی چاہئے کہ مرکب کو جلاکر خاک کردے بلکہ اسکا برودت سے کچھ تدارک کر دیا گیا لہزا چاروں کیفیات کا ہونا ضروری ہوا۔ لیکن اس پر جو روشنی شیخ الرئیس نور اللہ مرقدہ نے ڈالی ہے وہ بڑی عمدہ ہے وہ فرماتے ہیں کہ علم طب کی جو مبادی ہیں وہ مسلمات کے مانند ہیں طبیب پر فرض ہے کہ ان امور کے وجود کو بلا دلیل مان لے، تقلید کے طور پر تسلیم کر لے کیونکہ علم طب علوم جزئیہ میں سے ہے کیوں؟ اس لئے کہ یہ علم علم طبعی کی ایک شاخ ہے ،طبعیات میں عام اجسام سے بحث کی جاتی ہے جبکہ علم طب میں صرف بدن انسان سے تو جب معلوم ہوا کہ علم طب علم جزئی ہے ،آپ نے مان لیا، تو نتیجہ ظاہر ہے کہ علم جزئی کے مبادی بلا دلیل مان لئے جاتے ہیں۔ آگے چل کر فرماتے ہیں کہ اگر جالینوس جیسا کئی طبیب مبادی طب کو دلائل سے ثابت کرنا چاہے تو سمجھ لو کہ وہ طبیب نہیں یعنی طبیب ہونے کی حیثیت سے ایسا نہیں کر رہا بلکہ وہ فلسفی بننا چاہتا ہے۔ ختم شد کلام شیخ الرئیس، لیکن میں اس بارے میں کچھ اور رائے رکھتا ہوں وہ یہ کہ جب طب یونانی یونان سے عرب میں جلوہ افروز ہوئی تو اس وقت اسے اپنانے والے جہاں جہلاء اور دنیا دار و مالدار لوگ تھے وہاں اولیاء کرام بھی تھے انہوں اسے اپنایا اور کماحقہ اپنایا انہوں نے جہاں ظاہری طور پر اسے پرکھا سمجھا وہاں دل کی آنکھ سے بھی کام لیا اور طب میں جو غیر فطری نظریات و کلیات تھے اسے دل کی آنکھ سے تصدیق کر کے کاٹ دیا اس وقت ہمارے پاس طب یونانی نہیں طب عربی ہے اس طب کو زندہ رکھنے میں اولیاء کرام کا بہٹٓت بڑا ھاتھ ہے۔ یہ باتیں میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا بلکہ حکیم انقلاب المعالج دوست محمد صابر ملتانی علیہ رحمہ کی ہیں، وما علینا الاالبلاغ

القانون فی الطب اور سائینس

سائنس نے طب قدیم کو بڑا پڑھا کئی سو سال تک القانون فی الطب انکی یونیورسٹی میں پڑھایا جاتا رہا آخر کار جب اسکو (سائنس) تھوڑی سی ترقی و پزیرائی ملی تو اس نے طب قدہم کو تعصب کی نگاہ سے دیکھنا شروع کیا اور طب قدیم کے بنیادی مسائل ارکان کو جھٹلا کر قانون جیسی کتاب کو یہ کہہ جلا دیا کہ اس مین فلاں فلاں امراض کا علاج نہیں حالانکہ طب یونانی میں ایسے اصول موجود ہیں جنکی روشنی میں نئے آنے والے امراض و علامات کا علاج ممکن تھا اور ہے۔

اتوار، 2 مارچ، 2014

منافع الاعضاء

اہمیت منافع الاعضاء

چونکہ علم و فن طب کی بنیاد میں امور طبعیہ سات ایسے پتھر ہیں جن میں سے کسی ایک کی نفی سے انسانی زندگی کا اثبات نا ممکن و محال ہے اور اعضاء ان میں سے مرکزی اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ ان ارکان مزاج اور اخلاط کی پیشگی موجودگی اعضاء کے وجود کے لئے جہا ں ضروری ہے وہاں انکی منفیعت ارواح و قوای و افعال کی محتاج اس لئے منافع الاعضاء کو ذہن نشیں کئے بغیر کسی مرض کا تدارک و علاج نا ممکن و محال ہے