پیر، 21 اکتوبر، 2019

نعت عبد الرحمن جامی

گل از رخت آموختہ نازک بدنی را
گلاب نے تیرے چہرے سے نزاکت کا درس لیا ہے۔
بلبل زتو آموختہ شیریں سخنی را
بلبل نے تیرے تکلم سے شیریں کلای سیکھی ہے۔
ہر کس کہ لبِ لعل ترا دیدہ بہ دل گفت
جس نے بھی تیرے لعل گوں لب دیکھے تو دل (کی آواز) سے کہا
حقا کہ چہ خوش کندہ عقیقِ یمنی را
یقینا" اس یمنی عقیق کو بہت خوبصورتی سے تراشا گیا ہے۔
خیاطِ ازل دوختہ بر قامتِ زیبا
آزل کے خیاط نے تیری خوبصورت قامت پر۔۔۔
در قد توایں جامۂ سروِ چمنی را
سرو ِ سمن کا حسین جامہ تیار کیا ہے۔(غالبا" شعر میں سرو سمن ہے)
در عشقِ تو دندان شکستہ است بہ الفت
تیرے عشق میں اپنے دانت گنوادیئے
تو جامہ رسانید اویسِ قرنی را
تو آپ نے اوایس قرنی کو جامہ ارسال کیا
ازجامیِ بے چارا رسانید سلامے
بے چارے جامی کی طرف سے سلام پہنچادو
بر درگہِ دربارِ رسولِ مدنی را
رسول مدنی کے دربار کے حضور۔

اتوار، 20 اکتوبر، 2019

نعت خواجہ عبد الغفار نقشبندی

خواجہ عبدالغفار نقشبندی مجددی فضلی المعروف پیر مٹھا، 1384ھ

حضرت محمد عبد الغفار فضلی نقشبندی مجددی رحمتپوری رحمۃ اللہ علیہ نے مندرجہ فریاد لکھی ہے جس میں اردو، ہندی، سرائیکی، فارسی اور عربی کا حسین امتزاج ہے:

ز عصیاں رُو سیاہ کردم، اغثنی یا رسول اللّٰه!
ہے تکیہ آپ کا ہر دم، اَغثنی یا رسول اللّٰه!

توئی شافی توئی کافی کرو میری خطا معافی
ز کردۂ خود پشیمانم اَغِثنی یا رسول اللّٰه!

کوئی کہتا ہے بد خویم، تجھے معلوم کیا گویم
رہائی دہ ز آزارم اَغِثنی یا رسول اللّٰه!

عَذَابُ السَّقَرِ مُوصَدَۃٌ فَاِنَّ النَّارَ مُوقَدَۃٌ
فَاِنَّکَ لَا تَذَر فَردًا اَغِثنی یا رسول اللّٰه!

جہاں سارے دے وچ جانی نہیں کوئی تیرا ثانی
توئی افضل توئی اکرم اَغِثنی یا رسول اللّٰه!

عن الاوجائی یعصمنی ،فلیس من ورىک لی
بسے امیدها دارم اَغِثنی یا رسول اللّٰه!

سنو کھاجہ موری جاری، میں پاپن ہوں دُکھاں ماری
خدارا بس بزاہ گارم اَغِثنی یا رسول اللّٰه!

لکھاں ݙُکھڑے کُھٹݨ دے نہیں، زخم اُلڑے چُھٹݨ دے نہیں
ݙِکھا یک بار دیدارم اَغِثنی یا رسول اللّٰه!

ذرا روئے دکھا جانا، جنازے میں تو آ جانا
قبر میں توں رکھیں پِرتم اَغِثنی یا رسول اللّٰه!

(حضرت) عبدُ الغفّار گریانم بفرقت سینہ بریانم
وَنجایو مونجھ تے ہر غم اَغِثنی یا رسول اللّٰه!

بدھ، 16 اکتوبر، 2019

حال دل کس کو سنائیں

حالِ دل کس کو سنائیں آپ ﷺ کے ہوتے ہوئے

کیوں کسی کے در پہ جائیں آپ ﷺ کے ہوتے ہوئے


میں غلام مصطفی ﷺ ہوں یہ مری پہچان ہے

غم مجھے کیوں کر ستائیں آپ ﷺ کے ہوتے ہوئے


شانِ محبوبی دکھائی جائے گی محشر کے دن

کون دیکھے گا خطائیں آپ ﷺ کے ہوتے ہوئے


زلفِ محبوب خدا لہرائے گی محشر کے دن

خوب یہ کس کی گھٹائیں آپ ﷺ کے ہوتے ہوئے


میں یہ کیسے مان جاؤں شام کے بازار میں

چھین لے کوئی ردائیں آپ ﷺ کے ہوتے ہوئے


اپنا جینا اپنا مرنا اب اسی چوکھٹ پہ ہے

ہم کہاں سرکار جائیں آپ ﷺ کے ہوتے ہوئے


کہہ رہا ہے آپ کا رب "اَنتَ فِیھِم" آپ سے

میں انہیں دوں کیوں سزائیں آپ ﷺ کے ہوتے ہوئے


یہ تو ہو سکتا نہیں ہے یہ بات ممکن ہی نہیں

میرے گھر میں غم آ جائیں آپ ﷺ کے ہوتے ہوئے


کون ہے الطاف اپنا حال دل کس سے کہیں

زخم دل کس کو دکھائیں آپ ﷺ کے ہوتے ہوئے


ہفتہ، 12 اکتوبر، 2019

قانون مفرد اعضاء

جب جسم میں ایک ہی خلط بنتی رہتی ہے تو وہ خلط اپنے متعلقہ مقامات پر جمع ہونی شروع ہو جاتی ہے اور پھر وہاں پر رگڑ کھا کر گزرتی ہے اور یہی رگڑ تمام فساد پیدا کرتی ہے

سردی سے چیزیں سکڑتی ہے
گرمی سے پھیلتی ہیں
اور تری سے پھولتی ہیں

اب سمجھ لیں کہ ہر عضو میں سکیڑ کیسے آئے گا
قانون فطرت ہے
کہ

گرمی کے بعد تری آتی ہے
تری کے بعد سردی آتی ہے
سردی کے بعد خشکی آتی ہے

اور یہی خشکی سردی کی انتہا ہے
اور اسی خشکی سے عضو سکڑتا ہے

اب آپ کاربن کا فلسفہ سمجھ لیں
کہ کاربن کس طرح پیدا ہوتی ہے یہی کاربن سکیڑ پیدا کرتی ہے

رگڑ کو سمجھ لیں
جب خلط جمع ہو گی چاہے کوئی بھی ہو
وہاں رگڑ پیدا ہو گی
رگڑ سے حرارت پیدا ہو گی
اس حرارت سے وہاں بجلی بنے گی
وہ بجلی اخلاط میں موجود آکسیجن کو جلا کر راکھ کر دے گی یہ راکھ کاربن ہے اور کاربن کا مزاج خشک سرد ہے
یہ سکیڑ کا فلسفہ ہے
اور یہ سکیڑ کسی بھی عضو میں پیدا ہو سکتا ہے
سکیڑ ہمیشہ سردی سے ہوتا ہے
سردی کی انتہا خشکی ہے

جب عضلات سکڑیں گے
غدد پھول جائیں گے
اعصاب پھیل جائیں گے

جب غدد سکڑیں گے
اعصاب پھول جائیں گے
عضلات پھیل جائیں گے

جب اعصاب سکڑیں گے
عضلات پھول جائیں گے
غدد پھیل جائیں گے

خشکی سے سکڑنا
رطوبات سے پھولنا
گرمی سے پھیلنا

یہی سارا فلسفہ ہے
اس کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے

پیر، 9 ستمبر، 2019

فخر الدین عراقی تلمیز بہاء الدین زکریا


دلے یا دلبرے، یا جاں و یا جاناں، نمی دانم
ہمہ ہستی تو ای فی الجملہ ایں و آں نمی دانم
تُو دل ہے یا دلبر، تُو جان ہے یا جاناں، میں نہیں جانتا۔ ہر ہستی و ہر چیز تو تُو ہی ہے، میں یہ اور وہ کچھ نہیں جانتا۔

بجز تو در ہمہ عالم دگر دلبر نمی دانم
بجز تو در ہمہ گیتی دگر جاناں نمی دانم
سارے جہان میں تیرے علاوہ میں اور کسی دلبر کو نہیں جانتا، ساری دنیا میں تیرے علاوہ میں اور کسی جاناں کو نہیں پہچانتا۔

بجز غوغائے عشقِ تو، درونِ دل نمی یابم
بجز سودائے وصلِ تو، میانِ جاں نمی دانم
تیرے عشق کے جوش و خروش کے علاوہ میں اپنے دل میں کچھ اور نہیں پاتا، تیرے وصل کے جنون کے علاوہ میں اپنی جان میں کچھ اور نہیں دیکھتا۔
شیخ فخرالدین عراقی ایک خاکہ
Fakhruddin Iraqiمرا با توست پیمانے، تو با من کردہ ای عہدے
شکستی عہد، یا ہستی بر آں پیماں؟ نمی دانم
میرے ساتھ تیرے پیمان ہیں اور تو نے میرے ساتھ عہد کیے، تُو نے اپنے عہد توڑ دیے یا ابھی تک انہی پر ہے، میں کچھ نہیں جانتا، یعنی مجھے اس سے غرض نہیں ہے، عشق میں عہد و پیمان کچھ معنی نہیں رکھتے۔

بہ اُمّیدِ وصالِ تو دلم را شاد می دارم
چرا دردِ دلِ خود را دگر درماں نمی دانم؟
تیرے وصال کی امید سے اپنے دل کو شاد رکھتا ہوں، میں اسی لیے اپنے دل کے درد کیلیے کوئی اور درمان نہیں ڈھونڈتا، یعنی صرف اور صرف تیرے وصل کی امید ہی دردِ دل کا پہلا اور آخری علاج ہے۔

نمی یابم تو را در دل، نہ در عالم، نہ در گیتی
کجا جویم تو را آخر منِ حیراں؟ نمی دانم
مجھ (ہجر کے مارے) کو نہ تُو دل میں ملتا ہے اور نہ جہان و کائنات میں، میں حیران (و پریشان) نہیں جانتا کہ آخر تجھ کو کہاں ڈھونڈوں؟ شاعر کا حیران ہونا ہی اس شعر کا وصف ہے کہ یہیں سے سارے راستے کھلیں گے۔

عجب تر آں کہ می بینم جمالِ تو عیاں، لیکن
نمی دانم چہ می بینم منِ ناداں؟ نمی دانم
یہ بھی عجیب ہے کہ تیرا جمال ہر سُو اور ہر طرف عیاں دیکھتا ہوں، اور میں نادان یہ بھی نہیں جانتا کہ کیا دیکھ رہا ہوں۔

ھمی دانم کہ روز و شب جہاں روشن بہ روئے توست
و لیکن آفتابے یا مہِ تاباں؟ نمی دانم
یہ جانتا ہوں کہ جہان کے روز و شب تیرے ہی جمال سے روشن ہیں لیکن یہ نہیں جانتا کہ تو سورج ہے یا تابناک چاند۔ یہ شعر اور اس سے قبل کے دو اشعار قطعہ محسوس ہوتے ہیں۔

بہ زندانِ فراقت در عراقی پائے بندم شد
رہا خواہم شدن یا نے؟ ازیں زنداں، نمی دانم
عراقی کے پاؤں ہجر کے قید خانے میں بندھے ہوئے ہیں، اور اس قید سے رہا ہونا بھی چاہتا ہوں یا نہیں، نہیں جانتا۔

من نمی گویم، حضرت معین الدین چشتی

من نمی گویم انا الحق یار می گوید بگو
چوں نگویم چوں مرا دلدار می گوید بگو

میں نہیں کہتا انا الحق ، یار کہتا ہےکہ کہہ
جب نہیں کہتا ہوں میں دلدار کہتا ہےکہ کہہ

ہر چہ می گفتنی بمن بار می گفتی مگو
من نمی دانم چرا ایں بار می گوید بگو

پہلے جو کہتا تھا وہ، تاکید کرتا تھا نہ کہہ
پھر نہ جانے کس لئے اس بار کہتا ہےکہ کہہ

آں چہ نتواں گفتن اندر صومعہ با زاہداں
بے تحاشا بر سر بازار می گوید بگو

جو نہ کہنا چاہئے تھا زاہدوں کے سامنے
بہ تحاشا برسرِ بازار کہتا ہےکہ کہہ

گفتمش رازے کہ دارم با کہ گویم در جہاں
نیست محرم با در و دیوار می گوید بگو

میں نے پوچھا اس جہاں میں رازِ دل کس سے کہوں
محرمِ دل جب تمیں دیوار کہتا ہےکہ کہہ

سر منصوری نہاں کردن حد چوں منست
چوں کنم ہم ریسماں ہم دار می گوید بگو

رازِ منصوری چھپانے کی نہیں ہے مجھ پہ حد
کیا کروں پھانسی کا پھندا دار کہتا ہےکہ کہہ

آتش عشق از درخت جان من بر زد عَلم
ہر چہ با موسیٰ بگفت آں یار می گوید بگو

عشق کی آتش نے جھنڈا کردیا دل پہ نصب
جو کہ موسیٰ نے کہا تھا یار کہتا ہےکہ کہہ

گفتمش من چوں نیم در من مدام می دمے
من نخواہم گفتن اسرار می گوید بگو

میں نہیں ویسا تو میری خاک میں ہے کیوں چمک
چاہتا ہوں نہ کہوں اسرار کہتا ہےکہ کہہ

اے صبا کہ پرسدت کز ما چہ می گوید معیں
ایں دوئی را از میاں بر دار می گوید بگو

اے صبا تجھ سے وہ پوچھیں کچھ معیں کہتا بھی تھا
دور کرنے کو دوئ غم خوار کہتا ہےکہ کہہ

جمعرات، 29 اگست، 2019

صدائے عام

صداۓ عام ہے:
زندگی کا ٹیڑھا میڑھا راستہ پیچھے چھوڑ دیا ہے۔۔ نشیب و فراز سے پُر اور سینکڑوں خطرناک موڑوں والا راستہ۔۔ اللہ! کتنا تھکا دینے والا راستہ تھا،، مگر حیرت ہے کہ ہم کیسے گزر گئے؟ کتنے دوستوں نے، کتنے عزیزوں نے ہمارے ساتھ سفرِ حیات اختیار کیا، مگر اب وہ ہمارے اردگرد نہیں ہیں،، راستے کے پیچ و خم میں کھو گئے۔۔ یہ جانے والے کیا ہوئے؟ کتنے پیارے، کتنے محبوب تھے ہمیں۔۔ اب اُن کی مٹی کیوں ہماری آہٹ کو ترس گئی ہے؟ ان کی قبریں ہماری بے رُخی پر خاک بسر کیوں ہیں؟ آخر کیوں؟؟۔۔ کبھی سوچا آپ نے۔۔!! یہ موت،، یہ بیچارگی کی موت،، یہ بے کسی کی موت،، اللہ کریم ایسی موت سے پناہ میں رکھے، آمین۔۔ میں یہ موت نہیں مرنا چاہتا،، اسی لئے تو آپ کو آواز دے رہا ہوں۔۔ میرے پاس ایک دولت ہے،، ایک نعمت ہے،، بہت ہی کم یاب،، اگر نایاب کہہ لو تو بھی حرج نہیں۔۔ ایک ایسی دولت جو قابلِ انتقال ہے اور نا قابلِ فراموش ہے۔۔!
میں نے ایک سورج کو سرِ مقتل پایا تھا۔۔ اسکی گرمی،، اس کا رقصِ بسمل اسی راہ پر، ہاں یقیناً اسی راستے پر جس کی تاریکی اور سخت موڑوں نے ہجومِ خلق کو تھکا دیا ہے۔۔ راہِ حیات کی ایک طویل مسافت،، رُبع صدی کا یہ سارا راستہ اُن کی گردِ پا میں کٹا۔۔ کمال ہے،، گرد میں تو اندھیرا ہوتا ہے،، دھندلا پن ہوتا ہے،، مگر یہ تو روشن روشن تھی۔۔ ٹھنڈی ٹھنڈی اور میٹھی میٹھی روشنی۔۔ راستہ روشن،، آنکھیں روشن،، دل روشن اور ماحول روشن۔۔ ایک کسک،، ایک میٹھا میٹھا درد لئے ہوئے،، ایک سوز اور تپش جس میں جلنا مزہ دے رہا ہے۔۔ ایک ایسا منبعِ انوار جس نے روشنی اور گرمی ہی نہیں دی،، سوزِ عشق بانٹا ہے،، محبت لُٹائی ہے اور جذبوں کے دریا بہا دئیے۔۔ حسین اور قیمتی جذبے۔۔!
میں بھی ایک ڈھیر تھا مٹی کا۔۔ سرِراہ پڑا تھا۔۔ مرورِ زمانہ کا روندا ہوا،، کچلا ہوا۔۔۔۔ کہ ایک مسافر کا گزر ہوا۔۔ اس کا پاؤں مجھ پر پڑا اور پھر۔۔۔۔۔۔ چھوٹ نہ سکا۔۔ ایک لذت،، ایک رنگ،، ایک حُسن تھا جو اس کے پاؤں کی گَرد بننے میں ملا،، اور ہم اسی راہ کا غبار ہو گئے۔۔!
آنے والو! ہم تو جانے کی تیاری میں ہیں۔۔ اگر فرصت پاؤ تو آؤ تمہیں بھی سرِمقتل لئے چلیں۔۔ قتلِ خورشید کا نظارہ کرلو۔۔ تمہیں ڈھنگ سکھا دیں تو اس کی کرنیں سمیٹ لو۔۔ میٹھا میٹھا درد،، خوبصورت سی کسک اور ایک پُر لطف بے چینی نہ دے دوں تمہیں؟؟ کہ یہ امانت ہے میرے پاس۔۔ موت کی تاریکی مجھے نگل نہ سکے گی ان شاء اللہ۔۔ اسی راستے میں روشنی کی ایک لکیر سہی،، مگر رہیں گے ضرور تا اَبد۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
رُبع صدی تو میں نے خورشید کی تپش جھیلی،، تب جا کر ایک چراغ سا بنا۔۔ پتہ نہیں تم کچھ بن بھی پاؤ گے یا نہیں۔۔!
آؤ۔۔!! تمہارے دل میں چراغاں کردوں۔۔ تمہارے دل میں جلوس نکلیں، جذبوں کے، محبتوں کے، عشق کے۔۔ چھوڑو یار نقل کو چھوڑو۔۔ آؤ، سچ مچ کی روشنیاں جلائیں اور اُس منبعِ انوار کی طرف بڑھیں، جہاں سے سورج کا ایک جہان طلوع ہوتا ہے!
تحریر: حضرت امیر محمد اکرم اعوان رحمتہ اللہ علیہ

ضرورت رشتہ

ضرورتِ رشتہ✍

نسبتاً مروَّتاً کنايتاً ضرورتاً ارادتاً فطرتاً قدرتاً حقيقتاً حکايتاً طبيعتاً وقتاً فوقتاً شريعتاً طاقتاًاشارتاً مصلحتاً حقارتاً وراثتاً صراحتاً عقيدتاً وضاحتاً شرارتاً...... السلام علیکم

ایک نو عمر سید زادہ،نیک چلن اور سیدھاسادہ، کامل شرافت کا لبادہ، کبھی بس پہ کبھی پیادہ، طبعیت کا انتہائی سادہ، لمبا کم اور پست زیادہ، کاروبار کرنے کا ارادہ، اپنی ماں کا شہزادہ، حُسن کا دلدادہ، شادی پر آمادہ،
خوبصورت جوان ،اعلی خاندان، اپنا ذاتی مکان ، رہائش فی الحال پاکستان  ،ابھی پاس کیا ایم اے کا امتحان ، کبھی نادان کبھی شیطان ، ایک دفعہ ہوا یرقان ، کافی بار کروایا چالان، عرصہ سے پریشان کے لئے ،

ایک حسینہ مثلِ حور،چشم مخمور،چہرہ پُر نور،باتمیز باشعور، سلیقے سے معمور، نزاکت سے بھرپور، پردے میں مستور، خوش اخلاقی میں مشہور
باہنر سلیقہ مند،صوم و صلوۃ کی پابند، کسی کو نہ پہنچائے گزند، نہ کوئی بھابھی نہ کوئی نند، ستاروں پہ نہ سہی چھت پہ ڈالے کمند، صاف کرے گھر کا گند
باادب باحیاء، پیکرِ صدق و صفا، اک مثالِ وفا، سب کی لے دعا، نہ ہو کسی سے خفا، نہ کرے کسی کا گلا ،
نہ شائق سُرخی وکریم ،اعلی تربیت و تعلیم، سیرت و کردار میں عظیم، نرم خوئی میں شبنم و شمیم، سوچ میں قدیم، علالت میں حکیم
کوئی مہ جبین ،بے حد حسین،پردہ نشین، ذہین و فطین، بہن بھائیوں میں بہترین، پکانے کی شوقین، میٹھا بھی اور نمکین ، ساتھ لائے قالین ، سسرال کی کرے تحسین، شوہر جب ہو غمگین تو کرے حوصلے کی تلقین ، ساس کے سامنے مسکین، لفظ منہ سے نہ نکالے سنگین ، گھر کی کرے آرائش و تزئین، ہر بات پہ کہے آمین، یوں رہے جیسے پاکستان  کے سامنے انڈیا روس کے سامنے امریکہ سعودی کے سامنے یمن،
بقید حد، دراز قد، مصروف ید، حکم نہ کرے رد،
آہستہ خرام، شائستہ کلام،پیارا سا نام، مٹھاس جیسے چونسہ آم، رفتار جیسے تیز گام، شوہر کی غلام، زبان پر لگام، بات میں نہ کوئی ابہام، زبان پر نہ کوئی دشنام، امن و آشتی کا پیغام، خاندان میں لائے استحکام، جانتی ہو ہر کام، کبھی نہ ہو زکام،سب کا کرے احترام، ساس سے نہ لے انتقام، شوہر پر ہوں جو آلام، جلد بازی میں نہ کرے اقدام، مچائے نہ کوئی کہرام،
عجوبۂ کائنات، مصائب میں ثبات، عاریٔ جذبات ، ہمہ وقت محوِ خدمات ، نہ کرے سوالات، تمام دے مگر جوابات، اعلی و ارفع صفات، رفیقۂ حیات، صابرِ ممات

درکار ہے، لڑکا ہمارا طلبگار  ہے، لیکن کچھ بے قرار ہے،رابطے کا آپ کو اختیار ہے، اگر آپ کو اعتبار ہے، جلدجواب پر ہمیں اصرار ہے، ورنہ زندگی بےکار ہے،گرائیے جو رستے میں دیوار ہے، اب تو بس ہاں کا انتظار ہے۔

مسہری یا چارپائی،روئی بھری رضائی، قلم کے لیے روشنائی ، شوہر کے لیے ٹائی، چند زیور طلائی،نکاح سے پہلے رسمِ حنائی، منگنی پرمٹھائی، نکاح پر فائرنگ ہوائی ، بارات کے لیے دودھ ملائی، تھوڑی سی خود نمائی، تاکہ نہ ہو جگ ہنسائی، بعد میں نہ ہو لڑائی
شکوک سے پرہیز، بیاہ کے لیے بھاگو تیز،ابھی مٹی ہے زرخیز، کچھ کرسیاں اور میز،بس اس قدر جہیز،ہماری قوم نہ انگریز نہ چنگیز

لڑکی آپکی بھی کنواری ہے، شادی نہ ہوئی تو ہماری بھی خواری ہے، بتائیں اگر کوئی دشواری ہے، ہماری تو پوری تیاری ہے، ہاں کرنا آپ کی رواداری ہے۔

لڑکا ہمارا اناڑی ہے، مگر کاروباری ہے۔
ایک چھوٹی سی دوکان اور منہ میں زبان اور کبھی کبھی پان رکھتا ہے۔

مزید بات چیت بالمشافه ،یا بذریعہ لفافہ، بصورت ازیں چڑیا گھر میں دیکھیں زرافہ،
خط و کتابت بوعدہ صیغۂ راز ہے۔دوستو یہ آرزو دل کی آواز ہے۔

مکان/کمرہ نمبر:16
پریشان چوک
شہرِ کراچی۔
🤪🤪🤪🤪🤪🤪🤪😄😄😀

منگل، 27 اگست، 2019

نحوی غزل

وااااہ کیا خوب غزل ہے،پڑھیے اور اپنی نحو تازه کیجیے.👇👇👇

*نحوی غزل*

سُن میری نَحو میں کچھ، تُجھ سے یہ گُفتگو ہے
ڈُوبا ہُوں بحرِ غم میں، جِس کا کِنارہ تُو ہے

تیرا سِتَم ہے *مصدر*، ہر زخم تجھ سے *مُشتَق*
چَھلنی ہُوا ہے سینہ، *جامِد* مگر لَہُو ہے

ہے زُلف تیری *سالِم*، یہ دِل مِرا *مُکسَّر*
کر جمع دونوں کو تُو، مُحتاجیِ رَفُو ہے

تُو *معرِفہ* سراپا، پہچان میری *نکرہ*
لُوں نام گَر میں اپنا، کہتا کہ کون تُو ہے

ہر دن نیا تعلّق، *مُعرَب* ہو جیسے کوئی
رنجِش ہے مجھ سے *مَبنی*، ایسا تُو تُند خُو ہے

رکھتا ہوں میں ہمیشہ سر زیر تیرے آگے
تیرا *مُضاف اِلَیہ* میں، میرا *مُضاف* تُو ہے

ہوں کیوں نہ پھر برابر *اعراب* دونوں ہی کے
*موصُوف* تیرا پیکر، اور *صِفت* تیری خُو ہے

تُو *جُملہ اِسمِیہ* ہے ، تیری *خبر مُقدَّم*
تُو *مُبتدا* خبر کا، آغازِ گفتگُو ہے

میں *ظرفِ مُستَقَر* ہوں، تُو *فِعلِ حَذف* میرا
تیرے بَجُز نہیں کچھ، تیری ہی جُستجُو ہے

کیا *غیرِ مُنصرف* ہوں، جو یوں تُو مِثلِ *تنوین*
رہتا ہے دُور مجھ سے، جیسے مِرا عَدُو ہے

ہر ہر خبر تِری میں، *اِنشائیہ* سمجھ کر
یوں پی گیا ہوں جیسے، چَھکتا ہُوا سَبُو ہے

بدلے سُوال لاکھوں، پر ہر جواب اُلٹا
لائے *نفی* کے جیسے، ہر وقت دُو بَدُو ہے

دیوانہ ہوں اگرچہ، پر تیرے حُسن ہی کے باعِث
*مذکور فعل* میں ہوں، *مفعول* تُو لَہُ ہے

*معطوف* میری گردن، *متبوع* تیرا خنجر
یُوں خُود بَخُود پلٹتا، تلوار پر گُلُو ہے

*اِسمِ مُبالَغہ* ہے، یا اِسم تیرا *تفضیل*
ہاں دونوں ہی بجا ہیں، اس میں کہاں غُلُو ہے

حُسن و جمال تیرا، *صفتِ مُشبّہ* ٹھہرا
سب دائمی غضب کا، انداز رنگ و بُو ہے

سُنتا نہیں مِری اِک، کرتا ہوں سو نِدائیں
کیسا ہے تُو *مُنادٰی*، کیسا تُو چارہ جُو ہے

کہنے کو تُو ہے *مَرجع*، لیتا نہیں خبر بھی
میرا ضمیر کرتا، کتنی ہی ہاؤ ہُو ہے

سترہ *حروفِ جارہ*، ستّر ادائیں تیری
کرتی ہیں زیر دونوں، جاتا جو پیش رُو ہے

تیرا وُجود *مَصدَر*، ہر باب تجھ سے قائِم
تیرے بغیر میرا، ہر فِعل فالتو ہے

حافِظؔ جو ہوتا نحوی، *ترکیبِ* زِیست کرتا
زیر و زبر بدلتا، بس یہ ہی آرزو ہے.

( انتخاب )

بدھ، 24 جولائی، 2019

رات آ بیٹھی ہے پہلو میں ستارو تخلیہ

رات آ بیٹھی ہے پہلو میں ستارو تخلیہ 

اب ہمیں درکار ہے خلوت سو یارو تخلیہ 

آنکھ وا ہے اور حسن یار ہے پیش نظر 

شش جہت کے باقی ماندہ سب نظارو تخلیہ 

دیکھنے والا تھا منظر جب کہا درویش نے 

کُج کلاہو باد شاہو تاج دارو  تخلیہ 

غم سے اب ہوگی براہ راست میری گفتگو 

دوستو تیمار دارو غم گسارو تخلیہ 

چاروں جانب ہے ہجوم ناشنایان سخن 

اپنے پورے زور سے فارس پکارو تخلیہ 

جمعہ، 12 جولائی، 2019

اشعار

نہ بجھا چراغ ِدیار ِدل
نہ بچھڑنے کا تُو ملال کر
تجھے دے گی جینے کا حوصلہ
میری یاد رکھ لے سنبھال کر
.
یہ بھی کیا کہ اک ہی شخص کو
کبھی سوچنا، کبھی بھولنا
جو نہ بجھ سکے وہ دیا جلا
جو نہ ہو سکے وہ کمال کر
.
غم ِآرزو میری جستجو
میں سمٹ کہ آگیا روبرو
یہ سکُوت ِمرگ ہے کس لیے
میں جواب دوں، تُو سوال کر

اتوار، 12 مئی، 2019

محبتوں میں ہر ایک لمحہ وصال ہوگا

محبتوں میں ہر ایک لمحہ وصال ہو گا۔۔۔ یہ طے ہوا تھا۔​


بچھڑ کے بھی ایک دوسرے کا خیال ہو گا۔۔۔ یہ طے ہوا تھا۔​


۔۔​


وہی ہُوا نا ، بدلتے موسم میں تم نے ہم کو بھلا دیا ہے۔۔۔​


کوئی بھی رُت ہو نہ چاہتوں کو زوال ہو گا۔۔۔ یہ طے ہوا تھا۔​


۔۔​


یہ کیا کہ سانسیں اکھڑ گئی ہیں سفر کے آغاز میں ہی یارو​


کوئی بھی تھک کے نہ راستے میں نڈھال ہو گا۔۔۔ یہ طے ہوا تھا۔​


۔​


جدا ہوئے ہیں تو کیا ہوا ہے یہی تو دستور زندگی ہے​


جدائیوں میں نہ قربتوں کا ملال ہو گا۔۔۔ یہ طے ہوا تھا۔​


۔​


چلو کہ فیضان کشتیوں کو جلا دیں گمنام ساحلوں پر​


کہ اب یہاں سے نہ واپسی کا سوال ہو گا۔۔۔ یہ طے ہوا تھا۔​


۔۔۔۔۔​


حشر میں پھر ملینگے دوستو


حشر میں پھر ملیں گے میرے دوستوں 
بس یہی ہے پیام آخری آخری
کہنا سب جیتے جی کے ہیں شکوے گلے
آج سے ختم دنیا کے سب سلسلے
شمع ڈھلنے کو ہے ، دم نکلنے کو ہے 
اب ہے قصہ تمام آخری آخری 
حشر میں پھر ملیں گے میرے دوستوں 
مجھ کو نہلا کے پہنا دیے ہیں کفن 
رو چکے مل کے ماں باپ بھائی بہن 
موت بھی دوستوں آج حیرت میں ہے 
اب ہے قصہ تمام آخری آخری 
حشر میں پھر ملیں گے میرے دوستوں 
خوشبؤں میں کفن کو بسانے لگے 
میری میت کو دلہن بنانے لگے
دوستوں اب آٹھاؤ جنازہ میرا 
ہوچکا انتظام آخری آخری
حشر میں پھر ملیں گے میرے دوستوں 
مجھ کو زیر زمین لوگ دفنا گئے
کس قدر سنگدل ہو کہ فرما گئے 
دوستوں چین کی نیند سوتے رہو 
بس یہی ہے مقام آخری آخری 
حشر میں پھر ملیں گے میرے دوستوں 
کیسی دنیا ہے مرشد غضب رے غضب 
چند دنوں میں یہاں بھول جاتے ہیں سب 
جس بہانے میری یاد آجائے تو 
پڑھ لینا یہ کلام آخری آخری
حشر میں پھر ملیں گے میرے دوستوں 
۔

ہفتہ، 11 مئی، 2019

سلسلہ عالیہ

یوم وصال(4رمضان المبارک 10اگست 1978)          
مولانامحمد فضل حسین رحمتہ اللہ علیہ                                                                 
      خلیفہ مجاز                                                                              
بحرالعلوقلزم فیوضات آفتاب ولایت اولیاء حضرت العلام اللہ یارخان(رحمتہ اللہ علیہ)                                  
1) آپ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ میں بلند مقام رکھتے تھے اور سلسلہ عالیہ کی نسبت کےمظہر اور اس طریقہ کے کمالات و معارف اور حقائق کے عارف و ترجمان تھے                                                                                                                                   
   2) اور غایت درجہ میں سنت نبویﷺ کے متبع تھے  اور آداب طریقت کے امین و محافظ تھے                                                                                
4) اول برصغیر کی معروف خانقاہ نقشبندیہ مجددیہ فضلیہ کے شیخ قطب الاقطاب حضرت فضل علی قریشی رحمتہ اللہ علیہ کے دو خلفاکرام (قطب ارشاد
حضرت عبدالغفور عباسی مدنی رحمتہ اللہ علیہ + حضرت خواجہ نور بخش رحمتہ اللہ علیہ) سے اجازت و خلافت حاصل کیں۔               
5) دوم حضرت العلام مولانا اللہ یار خان رحمتہ اللہ علیہ سے منازل علیا (عالم امروحیرت-ورالورا) طے کئے مناصب ولایت اورسلاسل اربعہ میں اجازت و خلافت
حاصل کی۔                                                                                                                                                     
6) اور اولین خلفاء اور رازداں خلفاء میں شامل ہوئے۔                                                                                                   
7) ان مشائخ کرام کے خلفاء میں سے امتیازی حثیثت رکھتے تھے۔  اورصاحب کشف وکرامات تھے                                                                                       
                                                                                                                                          8) عرب وعجم (اندرون ملک خاص کر لاہور اور اس کے قرب وجوار شہروں میں اور بیرون ملک امارات )میں سلسلہ عالیہ اویسہ کی ترویج کا خوب کام کیا 
(1973میں آپ اپنے محبوب شیخ حضرت اللہ یار خان رح کی طرف سے سفیر بن کر امارات ابوظہبی گیے اور ایسی جماعت تیار فرمائ کہ
جس کی بشارت آپ کے شیخ حضرت اللہ یار خان رح کو کئ سال پہلے مشایخ کرام رحہم اللہ   نے برزخ سے دی تھی کہ
عرب میں ایک ایسی جماعت تیار ہو گی جو آپ کو عرب میں دین کی دعوت کے لیے بلاے گی مگر آپ جا نہ سکیں گے   1983 میں آپکو دعوت دی گی مگر  عدم صحت کی بنا پر شیخ رحمہ اللہ جا نہ سکے ۔ پھر  1984 میں وصال کے فورا بعد قاسم فیوضات حضرت امیر محمد اکرم اعوان رحمتہ اللہ علیہ   تشریف لے گیے اور پورے امارات میں  دعوت کانفرنس اور مجالس ذکراللہ کے پروگرام منعقد کیے گیے  اوربشمار لوگ راہ راست پر آے اور سلسلہ عالیہ میں داخل ہوے۔)           
9) سلسلہ عالیہ کی اس خدمت کی وجہ سے آقاﷺ کی طرف سےانعام و خوشنودی اور  بشارت ملی۔اور شیخ حضرت اللہ یار خان رح نے آپ کو مدینہ منورہ و مکہ مکرمہ
اور پھر جدہ  سے خطوط لکھ کر انعامات ملنے کی مبارک باد دیتے ہوئے لکھا کہ خدمت دین کے سبب  آقاﷺ نے خوش ہو کر آپ کو بشارت دی ہے اور ارشاد فرمایاہے کہ                                                                                                                     مولانا صاحب کو میرا سلام پہنچا دو۔                                                                                            
اور ہماری خوشنودی کی خبر دے دو۔                                                                           
اور اس کے بعد حضورانورﷺ نے آپ کے گلے میں پھولوں کا ھار بھی ڈالا تھا                                                                     
10) 4رمضان المبارک 10 اگست1978 بروز جمعرات وصال فرمایا                                                                                     
11) وصال پر اکابرین سلسلہ نے آپ کی برزخ کی اعلی زندگی کی بشارت دی۔                                                                       
12) قاسم فیوضات حضرت امیر محمد اکرم اعوان رحمتہ اللہ علیہ  نے تعزیتی خط میں لکھا کہ الحمداللہ مولانا صاحب کا انجام بخیرہوا برزخ میں راضی
خوشی ہیں حضرت جی کو بھی لکھا ہے رات خود بھی توجہ کی تھی خدا انہیں اور بلندی درجات سے نوازے آمین                            
حضرت رحمتہ اللہ علیہ نے مذید برادرم حافظ فضل الرحمن صاحب کو ایک دوسرے خط میں لکھا کہ میاں تمھیں مولانا رحمتہ اللہ علیہ کی کیا فکر ہے 
وہ تو حضرت جی رحمتہ اللہ علیہ کےبہت قریبی خادم اور پیارے ساتھی تھے ہم تو ان احباب کے طفیل سے دعائیں مانگتے ہیں اب آپ   
کہتے ہو-- ان کا برزخ میں کیا حال ہے   اگر ایسے لوگوں کے بارے میں بھی سوچا جائے تو ہمارا تمھارا کیا بنے گا میاں اللہ سے رحم طلب کیا کرو ۔اور ایسے مت سوچا کرو۔
   اورتعزیت کے لیے تشریف لاے تو فرمایا مولانا صاحب تو لاہور کی دو تین ہستیوں میں سے ایک تھے( یعنی ،حضرت داتا صاحب علی ہجویری رح ۔ غوث صاحب شاہی قلعہ والے اور مولانا احمد علی لاہوری رحم اللہ علیہ)اور منازل میں اعلی ہیں                                                                                                          
13) محبوب شیخ حضرت العللام اللہ یارخان نے تعزیتی خط میں لکھا کہ مولوی محمد فضل حسین مرحوم کی وفات نے ایک میرے دل کو  
صدمہ نہیں پہنچایا بلکہ پوری جماعت کے دلوں کو ہلا کررکھ دیا ہے جماعت میں ہرطرف صف ماتم بچھ گئی ہے۔                            
مولانا صاحب جماعت میں ریڑھ کی ہڈی کی طرح تھے یعنی ان کی جماعت میں حثییت ریڑھ کی ہڈی کی طرح سے تھی۔                    
"آپ عالم برزخ میں خوب اچھے حال پر ہیں(الحمداللہ)
محبوب شیخ فرما یا کرتے تھےکہ لاہور میں ان کے ٘پاے کی کوئ اور ہستی نہیں           
               اورشیخ نے تعزیتی خط میں شعر لکھا 
مکن گریہ برگور مقبول دوست   برخرمی کن مقبول اوست                                                       
(مقبول خدا دوست کی قبر پر رونا مت۔ بلکہ خوشی کرو کہ وہ خدا کا مقبول بن گیا ہے )