منگل، 19 فروری، 2019

کس کا جمال ناز ہے (نعت)

کس کا جمالِ ناز ہے جلوہ نما سُو بہ سُو
گوشہ بہ گوشہ در بہ در قریہ بہ قریہ کُو بہ کُو

اشکِ فشاں ہے کس لئے دیدۂِ منتظر میرا
دجلہ بہ دجلہ یم بہ یم چشمہ بہ چشمہ جُو بہ جُو

میری نگاہِ شوق میں حسنِ ازل ہے بے حجاب
غُنچہ بہ غُنچہ گُل بہ گُل لالہ بہ لالہ بُو بہ بُو

جلوہِ عارضِ نبی, رشکِ جمالِ یوسفی
سینہ بہ سینہ سر بہ سر چہرہ بہ چہرہ ہُو بہ ہُو

زلفِ درازِ مصطفی, گیسوئے لیلِ حق نما
طُرّہ بہ طُرّہ خم بہ خم حلقہ بہ حلقہ مُو بہ مُو

یہ میرا اضطرابِ شوق رشکِ جنونِ قیس ہے
جذبہ بہ جذبہ دل بہ دل شیوہ بہ شیوہ خُو بہ خُو

تیرا تصورِ جمال میرا شریکِ حال ہے
نالہ بہ نالہ غم بہ غم نعرہ بہ نعرہ ہُو بہ ہُو

بزمِ جہاں میں یاد ہے آج بھی ہر طرف تیری
قِصّہ بہ قِصّہ لب بہ لب خطبہ بہ خطبہ رُو بہ رُو

کاش ہو ان کا سامنا عین حریمِ ناز میں
چہرہ بہ چہرہ رُخ بہ رُخ دِیدہ بہ دِیدہ دُو بہ دُو

عالمِ شوق میں "رئیس" کس کی مجھے تلاش ہے
خِطہ بہ خِطہ راہ بہ راہ جادہ بہ جادہ سُو بہ سُو

رئیس امرہوی

جمعہ، 15 فروری، 2019

وصلی اللہ علی نورٍ (مولانا جامی)

وصلی الله علی نورٍ کزو شد نورہا پیدا
زمیں باحُبِّ اُو ساکن فلک در عشق اُو شیدا​


(اور الله کی رحمت ہو اس نور پر جس سے (تمام) نور پیدا ہوئے، زمین اس کی محبت کے باعث ساکن (اور) آسمان اس کے عشق میں شیدا ہے۔)


محمد احمد ومحمود، وے را خالقش بستود
ازو شد جودِ ہر موجود، وزو شد دید ہا بینا​


(خالق دو جہاں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعریف محمد، احمد اور محمود جیسے اسماء سے کی ہے عالم موجودات سے جو بھی فوائد حاصل ہورہے ہیں وہ آپ صلی الله علیہ وسلم ہی کی ذاتِ گرامی کے طفیل ہیں اور اسی طرح چشم مشاہدہ کی بصیرت بھی آپ صلی الله علیہ وسلم ہی کے طفیل ہے۔)

ازو در ہر تنے ذوقے، وزو در ہر دلے شوقے
ازو در ہر زباں ذکرے، وزو در ہر سرے سودا​


(انہیں کے طفیل ہر تن کو ذوق (زندگی) اور ہر دل کو محبت نصیب ہوئی، انہیں کی برکت سے ہر زبان کو ذکر (خدا) کی توفیق ہوتی ہے اور ہر سر میں سودائے محبت سمایا ہے۔)

اگر نامِ محمد را نیاوردے شفیع آدم
نہ آدم یافتے توبہ، نہ نوح از غرق نجینا​


(اگر حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کے نام کو حضرت آدم علیہ السلام شفیع نہ بناتے (تو) نہ حضرت آدم علیہ السلام توبہ کو پاتے نہ حضرت نوح علیہ السلام غرقابی سے نجات پاتے۔)

نہ ایوب از بلا راحت، نہ یوسف حشمت و جاہت
نہ عیسٰی آں مسیحا دم، نہ موسٰی آں ید بیضا​


(نہ حضرت ایوب علیہ السلام کو رنج و ابتلاء سے نجات ملتی اور نہ ہی حضرت یوسف علیہ السلام جاہ وحشمت سے بہرہ ور ہوتے۔ نہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مسیحائی ملتی نہ ہی موسیٰ علیہ السلام کو ید بیضا کا معجزہ عطا ہوتا۔)

دو چشمِ نرگسینش را کہ مَازَاغَ الْبَصَرُ خوانند
دو زلفِ عنبرینش را کہ وَاللَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی​


(ان کی دو نرگسی آنکھیں بتلاتی ہیں کہ ہم ”مَازَاغَ الْبَصَرُ“ پڑھیں اور دوعنبریں زلفیں بتلاتی ہیں کہ وَاللَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی پڑھیں۔)

ز سرِّ سینہ اش جامی اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ برخواں
زمعراجش چی می پرسی کہ سُبْحَانَ الَّذِیْ اَسْرٰی​


(ان کے سینے کے راز سے اے جامی اَلَمْ نَشْرَحْ لَک پڑھ لے۔ ان کی معراج کا کیا پوچھنا کہ سبحان الذی اسریٰ)

اک رند اور مدحت سلطان مدینہ

اک رند ہے اور مدحتِ سلطانِ مدینہؑ


ہاں کوئی نظر، رحمتِ سلطانِ مدینہؑ


تو صبحِ ازل، آئینہ حسنِ ازل بھی


اے صلؑ علی صورتِ سلطانِ مدینہؑ



دامانِ نظر تنگ و فراوانیِ جلوہ


اے طلعتِ حق، طلعتِ سلطانِ مدینہؑ


اے خاکِ مدینہ تری گلیوں کے تصدق


تو خلد ہے، تو جنتِ سلطانِ مدینہؑ


اس طرح کہ ہر سانس ہر مصروفِ عبادت


دیکھوں میں درِ دولتِ سلطانِ مدینہؑ


اک ننگِ غمِ عشق بھی ہے منتظرِ دید


صدقے ترے، اے صورتِ سلطانِ مدینہؑ


کونین کا غم، یادِ خدا، دردِ شفاعت


دولت ہے یہی دولتِ سلطانِ مدینہؑ


اے عالمِ تکویں! ترے اسرارِ حقیقت


منجملہ ایک آیتِ سلطانِ مدینہؑ


ظاہر میں غریب الغرباء پھر بھی یہ عالم


شاہوں سے سوا سطوتِ سلطانِ مدینہؑ


اس امتِ عاصی سے نہ منھ پھیر خدایا!


نازک ہے بہت غیرتِ سلطانِ مدینہؑ


اے جانِ بلب آمدہ، ہشیار، خبردار


وہ سامنے ہیں حضرتِ سلطانِ مدینہؑ


کچھ ہم کو نہیں کام جگرؔ! اور کسی سے


کافی ہے بس اک نسبتِ سلطانِ مدینہؑ


جگر مراد آبادی

جمعرات، 14 فروری، 2019

اے مرے ہمنشیں چل کہیں اور چل


اے میرے ہمنشیں چل کہیں اور چل، اس چمن میں اب اپنا گزارا نہیں


بات ہوتی گلوں تک تو سہہ لیتے ہم، اب تو کانٹوں پہ بھی حق ہمارا نہیں


آج آئے ہو تم، کل چلے جاؤ گے، یہ محبت کو اپنی گوارا نہیں


عمر بھر کا سہارا بنو تو بنو، دو گھڑی کا سہارا سہارا نہیں

دی صدا دار پر اور کبھی طور پر کس جگہ مہں نے تم کو پکارا نہیں ہے


ٹھوکریں یوں کھلانے سے کیا فائدہ، صاف کہہ دو کہ ملنا گوارا نہیں


گلستاں کو لہو کی ضرورت پڑی، سب سے پہلے ہی گردن ہماری کٹی


پھر بھی کہتے ہیں مجھ سے یہ اہل چمن، یہ چمن ہے ہمارا ،تمہارا نہیں


ظالمو! اپنی قسمت پہ نازاں نہ ہو، دور بدلے گا یہ وقت کی بات ہے


وہ یقیناً سُنے گا صدائیں میری، کیا تمہارا خدا ہے، ہمارا نہیں


اپنی زلفوں کو رخ سے ہٹا لیجیے، میرا ذوقِ نظر آزما لیجیے


آج گھر سے چلا ہوں یہی سوچ کر، یا تو نظریں نہیں یا نظارا نہیں


جانے کس کی لگن کس کی دھن میں مگن ہم کو جاتے ہوئے مڑ کے دیکھا نہیں


ہم نے آواز پر تم کو آواز دی، پھر بھی کہتے ہیں ہم نے پکارا نہیں

مضطر اکبر آبادی​




اے مرے دل کسی سے بھی

اے مرے دل کسی سے بھی شکوہ نہ کر اب بلندی پہ ترا ستارہ نہیں 
غیر کا ذکر کیا غیر پھر غیر ہے جو ہمارا تھا وہ بھی ہمارا نہیں

اے مرے ہمنشیں چل کہیں اور چل اس چمن میں اب اپنا گزرا نہیں 
بات ہوتی گلوں تک تو سہہ لیتے ہم اب تو کانٹوں پہ بھی حق ہمارا نہیں

دی صدا دار پر اور کبھی طور پر کس جگہ میں نے تم کو پکارا نہیں 
ٹھوکریں یوں لگانے سے کیا فائدہ صاف کہہ دو کہ ملنا گورا نہیں

آج آئے ہو تم کل چلے جاؤ گے یہ محبت کو اپنی گورا نہیں 
عمر بھر کا سہارا بنو تو بنو دو گھڑی کا سہارا سہارا نہیں

باغباں کو لہوکی ضرورت پڑی سب سے پہلے یہ گردن ہماری کٹی 
پھر بھی کہتے ہیں ہم سے یہ اہلِ چمن یہ چمن ہے ہمارا تمہارا نہیں

ظالموں اپنی قسمت پہ نازاں نہ ہو دور بدلے گا یہ وقت کی بات ہے 
وہ یقیناً سُنیں گا صدائیں مری کیا تمہارا خدا ہے ہمارا نہیں

استاد قمر جلالوی

الہی تیری چوکھٹ پر

الٰہی تیری چوکھٹ پر بھکاری بن کے آیا ہوں
سراپا فقر ہوں عجزوندامت ساتھ لایاہوں

بھکاری وہ کہ جس کے پاس جھولی ہے نہ پیالہ ہے
بھکاری وہ جسے حرص و ہوس نے مارڈالاہے

متاع دین و دانش نفس کے ہاتھوں سے لٹوا کر
سکونِ قلب کی دولت ہوس کی بھینٹ چڑھوا کر

لٹا کر ساری پونجی غفلت و عصیاں کی دلدل میں
سہارا لینے آیا ہوں ترے کعبے کے آنچل میں

گناہوں کی لپٹ سے کائناتِ قلب افسردہ
ارادے مضمحل،ہمت شکستہ،حوصلے مردہ

کہاں سے لاؤں طاقت دل کی سچی ترجمانی کی
کہ کس جنجال میں گزری ہیں گھڑیاں زندگانی کی

خلاصہ یہ کہ بس جل بُھن کے اپنی روسیاہی سے
سراپا فقر بن کر اپنی حالت کی تباہی سے

ترے دربار میں لایا ہوں اب اپنی زبوں حالی
تری چوکھٹ کے لائق ہر عمل سے ہاتھ ہیں خالی

یہ تیرا گھر ہے تیرے مہر کا دربار ہے مولا
سراپا نور ہے اک مَہبطِ انوار ہے مولا

تری چوکھٹ کے جو آداب ہیں میں ان سے خالی ہوں
نہیں جس کو سلیقہ مانگنے کا وہ سوالی ہوں

زباں غرقِ ندامت دل کی ناقص ترجمانی پر
خدایا رحم میری اس زبانِ بے زبانی پر

یہ آنکھیں خشک ہیں یارب انہیں رونا نہیں آتا
سلگتے داغ ہیں دل میں جنہیں دھونا نہیں آتا

الٰہی تیری چوکھٹ پر بھکاری بن کے آیا ہوں
سراپا فقر ہوں عجزوندامت ساتھ لایاہوں​

بدھ، 13 فروری، 2019

انتخاب

رَدیف ، قافیہ ، بندِش ، خیال ، لفظ گری​
وُہ حُور ، زینہ اُترتے ہُوئے سکھانے لگی​

کتاب ، باب ، غزل ، شعر ، بیت ، لفظ ، حُروف​
خفیف رَقص سے دِل پر اُبھارے مست پری​

کلام ، عَرُوض ، تغزل ، خیال ، ذوق ، جمال​
بدن کے جام نے اَلفاظ کی صراحی بھری​

سلیس ، شستہ ، مُرصع ، نفیس ، نرم ، رَواں​
دَبا کے دانتوں میں آنچل ، غزل اُٹھائی گئی​

قصیدہ ، شعر ، مسدس ، رُباعی ، نظم ، غزل​
مہکتے ہونٹوں کی تفسیر ہے بھلی سے بھلی​

مجاز ، قید ، معمہ ، شبیہ ، اِستقبال​
کسی سے آنکھ ملانے میں اَدبیات پڑھی​

قرینہ ، سَرقہ ، اِشارہ ، کِنایہ ، رَمز ، سوال​
حیا سے جھکتی نگاہوں میں جھانکتے تھے سبھی​

بیان ، علمِ معانی ، فصاحت ، علمِ بلاغ​
بیان کر نہیں سکتے کسی کی ایک ہنسی​

قیاس ، قید ، تناسب ، شبیہ ، سَجع ، نظیر​
کلی کو چوما تو جیسے کلی ، کلی سے ملی​

ترنم ، عرض ، مکرر ، سنائیے ، اِرشاد​
کسی نے ’’سنیے‘‘ کہا ، بزم جھوم جھوم گئی​

حُضُور ، قبلہ ، جناب ، آپ ، دیکھیے ، صاحب​
کسی کی شان میں گویا لغت بنائی گئی​

حریر ، اَطلس و کمخواب ، پنکھڑی ، ریشم​
کسی کے پھول سے تلووں سے شاہ مات سبھی​

گلاب ، عنبر و ریحان ، موتیا ، لوبان​
کسی کی زُلفِ معطر میں سب کی خوشبو ملی​
٭٭٭​
کسی کے مرمریں آئینے میں نمایاں ہیں​
گھٹا ، بہار ، دَھنک ، چاند ، پھول ، دیپ ، کلی​

کسی کا غمزہ شرابوں سے چُور قوسِ قُزح​
اَدا ، غُرُور ، جوانی ، سُرُور ، عِشوَہ گری​

کسی کے شیریں لبوں سے اُدھار لیتے ہیں​
مٹھاس ، شَہد ، رُطَب ، چینی ، قند ، مصری ڈَلی​

کسی کے نور کو چندھیا کے دیکھیں حیرت سے​
چراغ ، جگنو ، شرر ، آفتاب ، ’’پھول جھڑی‘‘​

کسی کو چلتا ہُوا دیکھ لیں تو چلتے بنیں​
غزال ، مورنی ، موجیں ، نُجُوم ، اَبر ، گھڑی​

کسی کی مدھ بھری آنکھوں کے آگے کچھ بھی نہیں​
تھکن ، شراب ، دَوا ، غم ، خُمارِ نیم شبی​

کسی کے ساتھ نہاتے ہیں تیز بارِش میں​
لباس ، گجرے ، اُفق ، آنکھ ، زُلف ، ہونٹ ، ہنسی​


کسی کا بھیگا بدن ، گُل کھلاتا ہے اَکثر​
گلاب ، رانی ، کنول ، یاسمین ، چمپا کلی​

بشرطِ ’’فال‘‘ کسی خال پر میں واروں گا​
چمن ، پہاڑ ، دَمن ، دَشت ، جھیل ، خشکی ، تری​

یہ جام چھلکا کہ آنچل بہار کا ڈَھلکا​
شریر ، شوشہ ، شرارہ ، شباب ، شر ، شوخی​

کسی کی تُرش رُوئی کا سبب یہی تو نہیں؟​
اَچار ، لیموں ، اَنار ، آم ، ٹاٹری ، اِملی​

کسی کے حُسن کو بن مانگے باج دیتے ہیں​
وَزیر ، میر ، سپاہی ، فقیہہ ، ذوقِ شہی​

نگاہیں چار ہُوئیں ، وَقت ہوش کھو بیٹھا​
صدی ، دَہائی ، برس ، ماہ ، روز ، آج ، اَبھی​

وُہ غنچہ یکجا ہے چونکہ وَرائے فکر و خیال!​
پلک نہ جھپکیں تو دِکھلاؤں پتّی پتّی اَبھی؟​
٭٭٭​
سیاہ زُلف: گھٹا ، جال ، جادُو ، جنگ ، جلال​
فُسُوں ، شباب ، شکارَن ، شراب ، رات گھنی​

جبیں: چراغ ، مقدر ، کشادہ ، دُھوپ ، سَحَر​
غُرُور ، قہر ، تعجب ، کمال ، نُور بھری​

ظریف اَبرُو: غضب ، غمزہ ، غصہ ، غور ، غزل​
گھمنڈ ، قوس ، قضا ، عشق ، طنز ، نیم سخی​


پَلک: فسانہ ، شرارت ، حجاب ، تیر ، دُعا​
تمنا ، نیند ، اِشارہ ، خمار ، سخت تھکی​

نظر: غزال ، محبت ، نقاب ، جھیل ، اَجل​
سُرُور ، عشق ، تقدس ، فریبِ اَمر و نہی​

نفیس ناک: نزاکت ، صراط ، عدل ، بہار​
جمیل ، سُتواں ، معطر ، لطیف ، خوشبو رَچی​

گلابی گال: شَفَق ، سیب ، سرخی ، غازہ ، کنول ​
طلسم ، چاہ ، بھنور ، ناز ، شرم ، نرم گِری​

دو لب: عقیق ، گُہر ، پنکھڑی ، شرابِ کُہن​
لذیذ ، نرم ، ملائم ، شریر ، بھیگی کلی​

نشیلی ٹھوڑی: تبسم ، ترازُو ، چاہِ ذَقن​
خمیدہ ، خنداں ، خجستہ ، خمار ، پتلی گلی​

گلا: صراحی ، نوا ، گیت ، سوز ، آہ ، اَثر​
ترنگ ، چیخ ، ترنم ، ترانہ ، سُر کی لڑی​

ہتھیلی: ریشمی ، نازُک ، مَلائی ، نرم ، لطیف​
حسین ، مرمریں ، صندل ، سفید ، دُودھ دُھلی​

کمر: خیال ، مٹکتی کلی ، لچکتا شباب​
کمان ، ٹوٹتی اَنگڑائی ، حشر ، جان کنی​

پری کے پاؤں: گلابی ، گداز ، رَقص پرست​
تڑپتی مچھلیاں ، محرابِ لب ، تھرکتی کلی​
٭٭٭​

جناب! دیکھا سراپا گلابِ مرمر کا!​
اَبھی یہ شعر تھے ، شعروں میں چاند اُترا کبھی؟​

مگر حُضُور غزل اَپنے تک ہی رَکھیے گا​
وُہ رُوٹھ جائے گا مجھ سے جو اُس کی دُھوم مچی​

جھکا کے نظریں کوئی بولا اِلتماسِ دُعا​
اُٹھا کے ہاتھ وُہ خیراتِ حُسن دینے لگی​

کشش سے حُسن کی چندا میں اُٹھے مد و جزر​
کسی کو سانس چڑھا سب کی سانس پھول گئی​

جو اُس پہ بوند گری ، اَبر کپکپا اُٹھا​
اُس ایک لمحے میں کافی گھروں پہ بجلی گری​

قیامت آ گئی خوشبو کی ، کلیاں چیخ پڑیں​
گلاب بولا نہیں ، غالبا وُہ زُلف کھلی​

طواف کرتی ہے معصومیت یوں کم سِن کا​
کہ قتل کر دے عدالت میں بھی ، تو صاف بری!​

بدن پہ حاشیہ لکھنا ، نگاہ پر تفسیر​
مقلدین ہیں شوخی کے اَپنی شیخ کئی​

تمام شہر میں سینہ بہ سینہ پھیل گئی​
کسی کے بھیگے لبوں سے وَبائے تشنہ لبی​

گلاب اور ایسا کہ تنہا بہار لے آئے​
بہشت میں بھی ہے گنجان شوخ گُل کی گلی​


کمالِ لیلیٰ تو دیکھو کہ ’’صرف‘‘ نام لیا​
’’پھر اُس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی‘‘​

گلابی آنکھوں میں ایسے بھنور تھے مستی کے​
شراب ڈُوب کے اُن میں بہت حلال لگی​

جسارَت عکس پہ لب رَکھنے کی نہیں کرتے​
بہت ہُوا بھی تو پلکوں سے گدگدی کر دی​

نجانے پہلی نظر کیوں حلال ہوتی ہے​
کسی کے حُسن پہ پہلی نظر ہی مہنگی پڑی​

چمن میں ’’پھول نہ توڑیں‘‘ لکھا تھا سو ہم نے​
گلاب زادی کو پہنا دی تتلیوں کی لڑی​

کسی کا زُلف کو لہرا کے چلنا ، اُف توبہ!​
شرابِ نابِ اَزل کے نشے میں مست پری​

وُہ بولتا ہے تو کانوں میں شَہد گھولتا ہے​
مریضِ قند پہ قدغن ہے اُس کو سننے کی​

کلی کو چھوڑ کے نقشِ قدم پہ بیٹھ گئی​
قلم ہلائے بنا تتلی نے غزل کہہ دی​

صنم اور ایسا کہ بت اُس کے آگے جھک جائیں​
دُعا دی اُس نے تو دو دیویوں کی گود بھری​

عطائے حُسن تھی ، قیس اِک جھلک میں شوخ غزل​
کتاب لکھتا میں اُس پر مگر وُہ پھر نہ ملی​

شہزاد قیس

منگل، 12 فروری، 2019

نعت امیر خُسرو

*نمی دانم چہ منزل بود شب جائے کہ من بودم*
*بہر سو رقصِ بسمل بود شب جائے کہ من بودم*

*پری پیکر نگارِ سرو قدے، لالہ رخسارے*
*سراپا آفتِ دل بودشب جائے کہ من بودم*

*رقیباں گوش بر آواز او در ناز من ترساں*
*سخن گفتن چہ مشکل بود شب جائے کہ من بودم*

*خدا خود میرِ مجلس بود اندر لامکاں خُسرؔو*
*محمد ﷺ شمعِ محفل بود شب جائے کہ من بودم*

اردو منظوم ترجمہ مسعود قریشی


نہیں معلوم کیسی تھی وہ منزل ، شب جہاں میں تھا
ہر اک جانب بپا تھا رقصِ بسمل، شب جہاں میں تھا

پری پیکر صنم تھا سرو قد ، رخسار لالہ گُوں
سراپا وہ صنم تھا آفتِ دل ، شب جہاں میں تھا

عدو تھے گوش بر آواز ، وہ نازاں تھا، میں ترساں
سخن کرنا وہاں تھا سخت مشکل ، شب جہاں میں تھا

خدا تھا میرِ مجلس لامکاں کی بزم میں خسرو
محمد تھے وہاں پر شمع محفل، شب جہاں میں تھا
(مسعود قریشی)​

نعت

رات جی کھول کے پھر میں نے دعا مانگی ہے
اور اک چیز بڑی بیش بہا مانگی ہے

اور وہ چیز نہ دولت، نہ مکاں ہے، نہ محل
تاج مانگا ہے، نہ د ستار و قبا مانگی ہے

نہ تو قدموں کے تلے فرشِ گہر مانگا ہے
اور نہ سر پر کلہِ بالِ ہما مانگی ہے

نہ شریک سفر و زاد سفر مانگا ہے
نہ صدائے جرس و بانگِ درا مانگی ہے

نہ سکندر كی طرح فتح کا پرچم مانگا
اور نہ مانندِ خضر عمرِ بقا مانگی ہے

نہ کوئی عہدہ، نہ کرسی، نہ لقب مانگا ہے
نہ کسی خدمتِ قومی کی جزا مانگی ہے

نہ تو مہمانِ خصوصی کا شرف مانگا ہے
اور نہ محفل میں کہیں صدر کی جا مانگی ہے

نہ تو منظر کوئی شاداب و حسیں مانگا ہے
نہ صحت بخش کوئی آب و ہوا مانگی ہے

محفلِ عیش نہ سامانِ طرب مانگا ہے
چاندنی رات نہ گھنگور گھٹا مانگی ہے

بانسری مانگی، نہ طاؤس، نہ بربط، نہ رباب
نہ کوئی مطربۂ شیریں نوا مانگی ہے

چین کی نیند، نہ آرام کا پہلو مانگا
بختِ بیدار، نہ تقدیرِ رسا مانگی ہے

نہ تو اشکوں کی فراوانی سے مانگی ہے نجات
اور نہ اپنے مرَض دل کی شفا مانگی ہے

سن کے حیران ہوئے جاتے ہیں اربابِ چمن
آخرش! کون سی پاگل نے دعا مانگی ہے

آ! ترے کان میں کہہ دوں اے جان جاناں!
سب سے پیاری مجھے کیا چیز ہے؟ کیا مانگی ہے

وہ سراپائے رحم گنبد خضری کے مکیں
ان کی غلامی میں مرنے کی دعا مانگی ہے۔