جمعرات، 14 فروری، 2019

اے مرے ہمنشیں چل کہیں اور چل


اے میرے ہمنشیں چل کہیں اور چل، اس چمن میں اب اپنا گزارا نہیں


بات ہوتی گلوں تک تو سہہ لیتے ہم، اب تو کانٹوں پہ بھی حق ہمارا نہیں


آج آئے ہو تم، کل چلے جاؤ گے، یہ محبت کو اپنی گوارا نہیں


عمر بھر کا سہارا بنو تو بنو، دو گھڑی کا سہارا سہارا نہیں

دی صدا دار پر اور کبھی طور پر کس جگہ مہں نے تم کو پکارا نہیں ہے


ٹھوکریں یوں کھلانے سے کیا فائدہ، صاف کہہ دو کہ ملنا گوارا نہیں


گلستاں کو لہو کی ضرورت پڑی، سب سے پہلے ہی گردن ہماری کٹی


پھر بھی کہتے ہیں مجھ سے یہ اہل چمن، یہ چمن ہے ہمارا ،تمہارا نہیں


ظالمو! اپنی قسمت پہ نازاں نہ ہو، دور بدلے گا یہ وقت کی بات ہے


وہ یقیناً سُنے گا صدائیں میری، کیا تمہارا خدا ہے، ہمارا نہیں


اپنی زلفوں کو رخ سے ہٹا لیجیے، میرا ذوقِ نظر آزما لیجیے


آج گھر سے چلا ہوں یہی سوچ کر، یا تو نظریں نہیں یا نظارا نہیں


جانے کس کی لگن کس کی دھن میں مگن ہم کو جاتے ہوئے مڑ کے دیکھا نہیں


ہم نے آواز پر تم کو آواز دی، پھر بھی کہتے ہیں ہم نے پکارا نہیں

مضطر اکبر آبادی​




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں