اے مرے دل کسی سے بھی شکوہ نہ کر اب بلندی پہ ترا ستارہ نہیں
غیر کا ذکر کیا غیر پھر غیر ہے جو ہمارا تھا وہ بھی ہمارا نہیں
اے مرے ہمنشیں چل کہیں اور چل اس چمن میں اب اپنا گزرا نہیں
بات ہوتی گلوں تک تو سہہ لیتے ہم اب تو کانٹوں پہ بھی حق ہمارا نہیں
دی صدا دار پر اور کبھی طور پر کس جگہ میں نے تم کو پکارا نہیں
ٹھوکریں یوں لگانے سے کیا فائدہ صاف کہہ دو کہ ملنا گورا نہیں
آج آئے ہو تم کل چلے جاؤ گے یہ محبت کو اپنی گورا نہیں
عمر بھر کا سہارا بنو تو بنو دو گھڑی کا سہارا سہارا نہیں
باغباں کو لہوکی ضرورت پڑی سب سے پہلے یہ گردن ہماری کٹی
پھر بھی کہتے ہیں ہم سے یہ اہلِ چمن یہ چمن ہے ہمارا تمہارا نہیں
ظالموں اپنی قسمت پہ نازاں نہ ہو دور بدلے گا یہ وقت کی بات ہے
وہ یقیناً سُنیں گا صدائیں مری کیا تمہارا خدا ہے ہمارا نہیں
استاد قمر جلالوی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں