پیر، 9 ستمبر، 2019

فخر الدین عراقی تلمیز بہاء الدین زکریا


دلے یا دلبرے، یا جاں و یا جاناں، نمی دانم
ہمہ ہستی تو ای فی الجملہ ایں و آں نمی دانم
تُو دل ہے یا دلبر، تُو جان ہے یا جاناں، میں نہیں جانتا۔ ہر ہستی و ہر چیز تو تُو ہی ہے، میں یہ اور وہ کچھ نہیں جانتا۔

بجز تو در ہمہ عالم دگر دلبر نمی دانم
بجز تو در ہمہ گیتی دگر جاناں نمی دانم
سارے جہان میں تیرے علاوہ میں اور کسی دلبر کو نہیں جانتا، ساری دنیا میں تیرے علاوہ میں اور کسی جاناں کو نہیں پہچانتا۔

بجز غوغائے عشقِ تو، درونِ دل نمی یابم
بجز سودائے وصلِ تو، میانِ جاں نمی دانم
تیرے عشق کے جوش و خروش کے علاوہ میں اپنے دل میں کچھ اور نہیں پاتا، تیرے وصل کے جنون کے علاوہ میں اپنی جان میں کچھ اور نہیں دیکھتا۔
شیخ فخرالدین عراقی ایک خاکہ
Fakhruddin Iraqiمرا با توست پیمانے، تو با من کردہ ای عہدے
شکستی عہد، یا ہستی بر آں پیماں؟ نمی دانم
میرے ساتھ تیرے پیمان ہیں اور تو نے میرے ساتھ عہد کیے، تُو نے اپنے عہد توڑ دیے یا ابھی تک انہی پر ہے، میں کچھ نہیں جانتا، یعنی مجھے اس سے غرض نہیں ہے، عشق میں عہد و پیمان کچھ معنی نہیں رکھتے۔

بہ اُمّیدِ وصالِ تو دلم را شاد می دارم
چرا دردِ دلِ خود را دگر درماں نمی دانم؟
تیرے وصال کی امید سے اپنے دل کو شاد رکھتا ہوں، میں اسی لیے اپنے دل کے درد کیلیے کوئی اور درمان نہیں ڈھونڈتا، یعنی صرف اور صرف تیرے وصل کی امید ہی دردِ دل کا پہلا اور آخری علاج ہے۔

نمی یابم تو را در دل، نہ در عالم، نہ در گیتی
کجا جویم تو را آخر منِ حیراں؟ نمی دانم
مجھ (ہجر کے مارے) کو نہ تُو دل میں ملتا ہے اور نہ جہان و کائنات میں، میں حیران (و پریشان) نہیں جانتا کہ آخر تجھ کو کہاں ڈھونڈوں؟ شاعر کا حیران ہونا ہی اس شعر کا وصف ہے کہ یہیں سے سارے راستے کھلیں گے۔

عجب تر آں کہ می بینم جمالِ تو عیاں، لیکن
نمی دانم چہ می بینم منِ ناداں؟ نمی دانم
یہ بھی عجیب ہے کہ تیرا جمال ہر سُو اور ہر طرف عیاں دیکھتا ہوں، اور میں نادان یہ بھی نہیں جانتا کہ کیا دیکھ رہا ہوں۔

ھمی دانم کہ روز و شب جہاں روشن بہ روئے توست
و لیکن آفتابے یا مہِ تاباں؟ نمی دانم
یہ جانتا ہوں کہ جہان کے روز و شب تیرے ہی جمال سے روشن ہیں لیکن یہ نہیں جانتا کہ تو سورج ہے یا تابناک چاند۔ یہ شعر اور اس سے قبل کے دو اشعار قطعہ محسوس ہوتے ہیں۔

بہ زندانِ فراقت در عراقی پائے بندم شد
رہا خواہم شدن یا نے؟ ازیں زنداں، نمی دانم
عراقی کے پاؤں ہجر کے قید خانے میں بندھے ہوئے ہیں، اور اس قید سے رہا ہونا بھی چاہتا ہوں یا نہیں، نہیں جانتا۔

من نمی گویم، حضرت معین الدین چشتی

من نمی گویم انا الحق یار می گوید بگو
چوں نگویم چوں مرا دلدار می گوید بگو

میں نہیں کہتا انا الحق ، یار کہتا ہےکہ کہہ
جب نہیں کہتا ہوں میں دلدار کہتا ہےکہ کہہ

ہر چہ می گفتنی بمن بار می گفتی مگو
من نمی دانم چرا ایں بار می گوید بگو

پہلے جو کہتا تھا وہ، تاکید کرتا تھا نہ کہہ
پھر نہ جانے کس لئے اس بار کہتا ہےکہ کہہ

آں چہ نتواں گفتن اندر صومعہ با زاہداں
بے تحاشا بر سر بازار می گوید بگو

جو نہ کہنا چاہئے تھا زاہدوں کے سامنے
بہ تحاشا برسرِ بازار کہتا ہےکہ کہہ

گفتمش رازے کہ دارم با کہ گویم در جہاں
نیست محرم با در و دیوار می گوید بگو

میں نے پوچھا اس جہاں میں رازِ دل کس سے کہوں
محرمِ دل جب تمیں دیوار کہتا ہےکہ کہہ

سر منصوری نہاں کردن حد چوں منست
چوں کنم ہم ریسماں ہم دار می گوید بگو

رازِ منصوری چھپانے کی نہیں ہے مجھ پہ حد
کیا کروں پھانسی کا پھندا دار کہتا ہےکہ کہہ

آتش عشق از درخت جان من بر زد عَلم
ہر چہ با موسیٰ بگفت آں یار می گوید بگو

عشق کی آتش نے جھنڈا کردیا دل پہ نصب
جو کہ موسیٰ نے کہا تھا یار کہتا ہےکہ کہہ

گفتمش من چوں نیم در من مدام می دمے
من نخواہم گفتن اسرار می گوید بگو

میں نہیں ویسا تو میری خاک میں ہے کیوں چمک
چاہتا ہوں نہ کہوں اسرار کہتا ہےکہ کہہ

اے صبا کہ پرسدت کز ما چہ می گوید معیں
ایں دوئی را از میاں بر دار می گوید بگو

اے صبا تجھ سے وہ پوچھیں کچھ معیں کہتا بھی تھا
دور کرنے کو دوئ غم خوار کہتا ہےکہ کہہ