جمعرات، 29 اگست، 2019

صدائے عام

صداۓ عام ہے:
زندگی کا ٹیڑھا میڑھا راستہ پیچھے چھوڑ دیا ہے۔۔ نشیب و فراز سے پُر اور سینکڑوں خطرناک موڑوں والا راستہ۔۔ اللہ! کتنا تھکا دینے والا راستہ تھا،، مگر حیرت ہے کہ ہم کیسے گزر گئے؟ کتنے دوستوں نے، کتنے عزیزوں نے ہمارے ساتھ سفرِ حیات اختیار کیا، مگر اب وہ ہمارے اردگرد نہیں ہیں،، راستے کے پیچ و خم میں کھو گئے۔۔ یہ جانے والے کیا ہوئے؟ کتنے پیارے، کتنے محبوب تھے ہمیں۔۔ اب اُن کی مٹی کیوں ہماری آہٹ کو ترس گئی ہے؟ ان کی قبریں ہماری بے رُخی پر خاک بسر کیوں ہیں؟ آخر کیوں؟؟۔۔ کبھی سوچا آپ نے۔۔!! یہ موت،، یہ بیچارگی کی موت،، یہ بے کسی کی موت،، اللہ کریم ایسی موت سے پناہ میں رکھے، آمین۔۔ میں یہ موت نہیں مرنا چاہتا،، اسی لئے تو آپ کو آواز دے رہا ہوں۔۔ میرے پاس ایک دولت ہے،، ایک نعمت ہے،، بہت ہی کم یاب،، اگر نایاب کہہ لو تو بھی حرج نہیں۔۔ ایک ایسی دولت جو قابلِ انتقال ہے اور نا قابلِ فراموش ہے۔۔!
میں نے ایک سورج کو سرِ مقتل پایا تھا۔۔ اسکی گرمی،، اس کا رقصِ بسمل اسی راہ پر، ہاں یقیناً اسی راستے پر جس کی تاریکی اور سخت موڑوں نے ہجومِ خلق کو تھکا دیا ہے۔۔ راہِ حیات کی ایک طویل مسافت،، رُبع صدی کا یہ سارا راستہ اُن کی گردِ پا میں کٹا۔۔ کمال ہے،، گرد میں تو اندھیرا ہوتا ہے،، دھندلا پن ہوتا ہے،، مگر یہ تو روشن روشن تھی۔۔ ٹھنڈی ٹھنڈی اور میٹھی میٹھی روشنی۔۔ راستہ روشن،، آنکھیں روشن،، دل روشن اور ماحول روشن۔۔ ایک کسک،، ایک میٹھا میٹھا درد لئے ہوئے،، ایک سوز اور تپش جس میں جلنا مزہ دے رہا ہے۔۔ ایک ایسا منبعِ انوار جس نے روشنی اور گرمی ہی نہیں دی،، سوزِ عشق بانٹا ہے،، محبت لُٹائی ہے اور جذبوں کے دریا بہا دئیے۔۔ حسین اور قیمتی جذبے۔۔!
میں بھی ایک ڈھیر تھا مٹی کا۔۔ سرِراہ پڑا تھا۔۔ مرورِ زمانہ کا روندا ہوا،، کچلا ہوا۔۔۔۔ کہ ایک مسافر کا گزر ہوا۔۔ اس کا پاؤں مجھ پر پڑا اور پھر۔۔۔۔۔۔ چھوٹ نہ سکا۔۔ ایک لذت،، ایک رنگ،، ایک حُسن تھا جو اس کے پاؤں کی گَرد بننے میں ملا،، اور ہم اسی راہ کا غبار ہو گئے۔۔!
آنے والو! ہم تو جانے کی تیاری میں ہیں۔۔ اگر فرصت پاؤ تو آؤ تمہیں بھی سرِمقتل لئے چلیں۔۔ قتلِ خورشید کا نظارہ کرلو۔۔ تمہیں ڈھنگ سکھا دیں تو اس کی کرنیں سمیٹ لو۔۔ میٹھا میٹھا درد،، خوبصورت سی کسک اور ایک پُر لطف بے چینی نہ دے دوں تمہیں؟؟ کہ یہ امانت ہے میرے پاس۔۔ موت کی تاریکی مجھے نگل نہ سکے گی ان شاء اللہ۔۔ اسی راستے میں روشنی کی ایک لکیر سہی،، مگر رہیں گے ضرور تا اَبد۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
رُبع صدی تو میں نے خورشید کی تپش جھیلی،، تب جا کر ایک چراغ سا بنا۔۔ پتہ نہیں تم کچھ بن بھی پاؤ گے یا نہیں۔۔!
آؤ۔۔!! تمہارے دل میں چراغاں کردوں۔۔ تمہارے دل میں جلوس نکلیں، جذبوں کے، محبتوں کے، عشق کے۔۔ چھوڑو یار نقل کو چھوڑو۔۔ آؤ، سچ مچ کی روشنیاں جلائیں اور اُس منبعِ انوار کی طرف بڑھیں، جہاں سے سورج کا ایک جہان طلوع ہوتا ہے!
تحریر: حضرت امیر محمد اکرم اعوان رحمتہ اللہ علیہ

ضرورت رشتہ

ضرورتِ رشتہ✍

نسبتاً مروَّتاً کنايتاً ضرورتاً ارادتاً فطرتاً قدرتاً حقيقتاً حکايتاً طبيعتاً وقتاً فوقتاً شريعتاً طاقتاًاشارتاً مصلحتاً حقارتاً وراثتاً صراحتاً عقيدتاً وضاحتاً شرارتاً...... السلام علیکم

ایک نو عمر سید زادہ،نیک چلن اور سیدھاسادہ، کامل شرافت کا لبادہ، کبھی بس پہ کبھی پیادہ، طبعیت کا انتہائی سادہ، لمبا کم اور پست زیادہ، کاروبار کرنے کا ارادہ، اپنی ماں کا شہزادہ، حُسن کا دلدادہ، شادی پر آمادہ،
خوبصورت جوان ،اعلی خاندان، اپنا ذاتی مکان ، رہائش فی الحال پاکستان  ،ابھی پاس کیا ایم اے کا امتحان ، کبھی نادان کبھی شیطان ، ایک دفعہ ہوا یرقان ، کافی بار کروایا چالان، عرصہ سے پریشان کے لئے ،

ایک حسینہ مثلِ حور،چشم مخمور،چہرہ پُر نور،باتمیز باشعور، سلیقے سے معمور، نزاکت سے بھرپور، پردے میں مستور، خوش اخلاقی میں مشہور
باہنر سلیقہ مند،صوم و صلوۃ کی پابند، کسی کو نہ پہنچائے گزند، نہ کوئی بھابھی نہ کوئی نند، ستاروں پہ نہ سہی چھت پہ ڈالے کمند، صاف کرے گھر کا گند
باادب باحیاء، پیکرِ صدق و صفا، اک مثالِ وفا، سب کی لے دعا، نہ ہو کسی سے خفا، نہ کرے کسی کا گلا ،
نہ شائق سُرخی وکریم ،اعلی تربیت و تعلیم، سیرت و کردار میں عظیم، نرم خوئی میں شبنم و شمیم، سوچ میں قدیم، علالت میں حکیم
کوئی مہ جبین ،بے حد حسین،پردہ نشین، ذہین و فطین، بہن بھائیوں میں بہترین، پکانے کی شوقین، میٹھا بھی اور نمکین ، ساتھ لائے قالین ، سسرال کی کرے تحسین، شوہر جب ہو غمگین تو کرے حوصلے کی تلقین ، ساس کے سامنے مسکین، لفظ منہ سے نہ نکالے سنگین ، گھر کی کرے آرائش و تزئین، ہر بات پہ کہے آمین، یوں رہے جیسے پاکستان  کے سامنے انڈیا روس کے سامنے امریکہ سعودی کے سامنے یمن،
بقید حد، دراز قد، مصروف ید، حکم نہ کرے رد،
آہستہ خرام، شائستہ کلام،پیارا سا نام، مٹھاس جیسے چونسہ آم، رفتار جیسے تیز گام، شوہر کی غلام، زبان پر لگام، بات میں نہ کوئی ابہام، زبان پر نہ کوئی دشنام، امن و آشتی کا پیغام، خاندان میں لائے استحکام، جانتی ہو ہر کام، کبھی نہ ہو زکام،سب کا کرے احترام، ساس سے نہ لے انتقام، شوہر پر ہوں جو آلام، جلد بازی میں نہ کرے اقدام، مچائے نہ کوئی کہرام،
عجوبۂ کائنات، مصائب میں ثبات، عاریٔ جذبات ، ہمہ وقت محوِ خدمات ، نہ کرے سوالات، تمام دے مگر جوابات، اعلی و ارفع صفات، رفیقۂ حیات، صابرِ ممات

درکار ہے، لڑکا ہمارا طلبگار  ہے، لیکن کچھ بے قرار ہے،رابطے کا آپ کو اختیار ہے، اگر آپ کو اعتبار ہے، جلدجواب پر ہمیں اصرار ہے، ورنہ زندگی بےکار ہے،گرائیے جو رستے میں دیوار ہے، اب تو بس ہاں کا انتظار ہے۔

مسہری یا چارپائی،روئی بھری رضائی، قلم کے لیے روشنائی ، شوہر کے لیے ٹائی، چند زیور طلائی،نکاح سے پہلے رسمِ حنائی، منگنی پرمٹھائی، نکاح پر فائرنگ ہوائی ، بارات کے لیے دودھ ملائی، تھوڑی سی خود نمائی، تاکہ نہ ہو جگ ہنسائی، بعد میں نہ ہو لڑائی
شکوک سے پرہیز، بیاہ کے لیے بھاگو تیز،ابھی مٹی ہے زرخیز، کچھ کرسیاں اور میز،بس اس قدر جہیز،ہماری قوم نہ انگریز نہ چنگیز

لڑکی آپکی بھی کنواری ہے، شادی نہ ہوئی تو ہماری بھی خواری ہے، بتائیں اگر کوئی دشواری ہے، ہماری تو پوری تیاری ہے، ہاں کرنا آپ کی رواداری ہے۔

لڑکا ہمارا اناڑی ہے، مگر کاروباری ہے۔
ایک چھوٹی سی دوکان اور منہ میں زبان اور کبھی کبھی پان رکھتا ہے۔

مزید بات چیت بالمشافه ،یا بذریعہ لفافہ، بصورت ازیں چڑیا گھر میں دیکھیں زرافہ،
خط و کتابت بوعدہ صیغۂ راز ہے۔دوستو یہ آرزو دل کی آواز ہے۔

مکان/کمرہ نمبر:16
پریشان چوک
شہرِ کراچی۔
🤪🤪🤪🤪🤪🤪🤪😄😄😀

منگل، 27 اگست، 2019

نحوی غزل

وااااہ کیا خوب غزل ہے،پڑھیے اور اپنی نحو تازه کیجیے.👇👇👇

*نحوی غزل*

سُن میری نَحو میں کچھ، تُجھ سے یہ گُفتگو ہے
ڈُوبا ہُوں بحرِ غم میں، جِس کا کِنارہ تُو ہے

تیرا سِتَم ہے *مصدر*، ہر زخم تجھ سے *مُشتَق*
چَھلنی ہُوا ہے سینہ، *جامِد* مگر لَہُو ہے

ہے زُلف تیری *سالِم*، یہ دِل مِرا *مُکسَّر*
کر جمع دونوں کو تُو، مُحتاجیِ رَفُو ہے

تُو *معرِفہ* سراپا، پہچان میری *نکرہ*
لُوں نام گَر میں اپنا، کہتا کہ کون تُو ہے

ہر دن نیا تعلّق، *مُعرَب* ہو جیسے کوئی
رنجِش ہے مجھ سے *مَبنی*، ایسا تُو تُند خُو ہے

رکھتا ہوں میں ہمیشہ سر زیر تیرے آگے
تیرا *مُضاف اِلَیہ* میں، میرا *مُضاف* تُو ہے

ہوں کیوں نہ پھر برابر *اعراب* دونوں ہی کے
*موصُوف* تیرا پیکر، اور *صِفت* تیری خُو ہے

تُو *جُملہ اِسمِیہ* ہے ، تیری *خبر مُقدَّم*
تُو *مُبتدا* خبر کا، آغازِ گفتگُو ہے

میں *ظرفِ مُستَقَر* ہوں، تُو *فِعلِ حَذف* میرا
تیرے بَجُز نہیں کچھ، تیری ہی جُستجُو ہے

کیا *غیرِ مُنصرف* ہوں، جو یوں تُو مِثلِ *تنوین*
رہتا ہے دُور مجھ سے، جیسے مِرا عَدُو ہے

ہر ہر خبر تِری میں، *اِنشائیہ* سمجھ کر
یوں پی گیا ہوں جیسے، چَھکتا ہُوا سَبُو ہے

بدلے سُوال لاکھوں، پر ہر جواب اُلٹا
لائے *نفی* کے جیسے، ہر وقت دُو بَدُو ہے

دیوانہ ہوں اگرچہ، پر تیرے حُسن ہی کے باعِث
*مذکور فعل* میں ہوں، *مفعول* تُو لَہُ ہے

*معطوف* میری گردن، *متبوع* تیرا خنجر
یُوں خُود بَخُود پلٹتا، تلوار پر گُلُو ہے

*اِسمِ مُبالَغہ* ہے، یا اِسم تیرا *تفضیل*
ہاں دونوں ہی بجا ہیں، اس میں کہاں غُلُو ہے

حُسن و جمال تیرا، *صفتِ مُشبّہ* ٹھہرا
سب دائمی غضب کا، انداز رنگ و بُو ہے

سُنتا نہیں مِری اِک، کرتا ہوں سو نِدائیں
کیسا ہے تُو *مُنادٰی*، کیسا تُو چارہ جُو ہے

کہنے کو تُو ہے *مَرجع*، لیتا نہیں خبر بھی
میرا ضمیر کرتا، کتنی ہی ہاؤ ہُو ہے

سترہ *حروفِ جارہ*، ستّر ادائیں تیری
کرتی ہیں زیر دونوں، جاتا جو پیش رُو ہے

تیرا وُجود *مَصدَر*، ہر باب تجھ سے قائِم
تیرے بغیر میرا، ہر فِعل فالتو ہے

حافِظؔ جو ہوتا نحوی، *ترکیبِ* زِیست کرتا
زیر و زبر بدلتا، بس یہ ہی آرزو ہے.

( انتخاب )