منگل، 27 اگست، 2019

نحوی غزل

وااااہ کیا خوب غزل ہے،پڑھیے اور اپنی نحو تازه کیجیے.👇👇👇

*نحوی غزل*

سُن میری نَحو میں کچھ، تُجھ سے یہ گُفتگو ہے
ڈُوبا ہُوں بحرِ غم میں، جِس کا کِنارہ تُو ہے

تیرا سِتَم ہے *مصدر*، ہر زخم تجھ سے *مُشتَق*
چَھلنی ہُوا ہے سینہ، *جامِد* مگر لَہُو ہے

ہے زُلف تیری *سالِم*، یہ دِل مِرا *مُکسَّر*
کر جمع دونوں کو تُو، مُحتاجیِ رَفُو ہے

تُو *معرِفہ* سراپا، پہچان میری *نکرہ*
لُوں نام گَر میں اپنا، کہتا کہ کون تُو ہے

ہر دن نیا تعلّق، *مُعرَب* ہو جیسے کوئی
رنجِش ہے مجھ سے *مَبنی*، ایسا تُو تُند خُو ہے

رکھتا ہوں میں ہمیشہ سر زیر تیرے آگے
تیرا *مُضاف اِلَیہ* میں، میرا *مُضاف* تُو ہے

ہوں کیوں نہ پھر برابر *اعراب* دونوں ہی کے
*موصُوف* تیرا پیکر، اور *صِفت* تیری خُو ہے

تُو *جُملہ اِسمِیہ* ہے ، تیری *خبر مُقدَّم*
تُو *مُبتدا* خبر کا، آغازِ گفتگُو ہے

میں *ظرفِ مُستَقَر* ہوں، تُو *فِعلِ حَذف* میرا
تیرے بَجُز نہیں کچھ، تیری ہی جُستجُو ہے

کیا *غیرِ مُنصرف* ہوں، جو یوں تُو مِثلِ *تنوین*
رہتا ہے دُور مجھ سے، جیسے مِرا عَدُو ہے

ہر ہر خبر تِری میں، *اِنشائیہ* سمجھ کر
یوں پی گیا ہوں جیسے، چَھکتا ہُوا سَبُو ہے

بدلے سُوال لاکھوں، پر ہر جواب اُلٹا
لائے *نفی* کے جیسے، ہر وقت دُو بَدُو ہے

دیوانہ ہوں اگرچہ، پر تیرے حُسن ہی کے باعِث
*مذکور فعل* میں ہوں، *مفعول* تُو لَہُ ہے

*معطوف* میری گردن، *متبوع* تیرا خنجر
یُوں خُود بَخُود پلٹتا، تلوار پر گُلُو ہے

*اِسمِ مُبالَغہ* ہے، یا اِسم تیرا *تفضیل*
ہاں دونوں ہی بجا ہیں، اس میں کہاں غُلُو ہے

حُسن و جمال تیرا، *صفتِ مُشبّہ* ٹھہرا
سب دائمی غضب کا، انداز رنگ و بُو ہے

سُنتا نہیں مِری اِک، کرتا ہوں سو نِدائیں
کیسا ہے تُو *مُنادٰی*، کیسا تُو چارہ جُو ہے

کہنے کو تُو ہے *مَرجع*، لیتا نہیں خبر بھی
میرا ضمیر کرتا، کتنی ہی ہاؤ ہُو ہے

سترہ *حروفِ جارہ*، ستّر ادائیں تیری
کرتی ہیں زیر دونوں، جاتا جو پیش رُو ہے

تیرا وُجود *مَصدَر*، ہر باب تجھ سے قائِم
تیرے بغیر میرا، ہر فِعل فالتو ہے

حافِظؔ جو ہوتا نحوی، *ترکیبِ* زِیست کرتا
زیر و زبر بدلتا، بس یہ ہی آرزو ہے.

( انتخاب )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں