جمعرات، 3 ستمبر، 2020

حاصل مطالعہ

حضرت مولانا رفیع الدین دیو بندی قدس مہتمم ثانی دارالعلوم دیوبند ایک دن دارالعلوم دیوبند کے صحن میں کھڑے تھے کہ دورہ حدیث کا ایک طلب علم مطنج سے کھانا لے کر آیا اور شوربے کا پیالہ مولانا کے سامنے زمین پر دے مارا اور نہایت گستاخانہ انداز میں کہا یہ ہے آپ کا اہتمام و انتظام کہ شوربے میں نہ مصالحہ ہے نہ گھی. اور بھی سخت سست الفاظ کہے. اس گستاخی پر طلباء جوش میں آئے مگر مولانا پوری متانت کے ساتھ خاموش رہے اور گستاخ طلب علم پر تین مرتبہ سر سے پیر تک نگاہ ڈالی. جب وہ چلا گیا تو آپ نے طلباء سے فرمایا کہ کیا یہ مدرسہ دیوبند کا طالب علم ہے؟ طلباء نے اثبات میں جواب دیا آپ نے اس پر فرمایا نہیں یہ مدرسہ کا طالب علم نہیں ہے. تحقیق پر ثابت ہوا کہ وہ مدرسہ کا طالب علم نہیں ہے. اس کا ہم نام دوسرا طالب علم ہے. اس نے دھوکے سے محض نام کے اشتراک کی وجہ سے کھانا پینا شروع کر دیا ہے ورنہ اس کا اندراج سرے سے رجسٹروں میں نہیں ہے. بات ظاہر ہو جانے پر طلباء نے مولانا سے عرض کیا کہ حضرت آپ نے اس وثوق سے کس بنا پر اس کے طالب علم ہونے کی نفی فرمائی. فرمایا میں نے خواب میں دیکھا کہ احاطہ مولسری میں دارالعلوم کا کنواں دودھ سے بھرا ہوا ہے اور اس کے من پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف فرما ہیں اور دودھ تقسیم فرما رہے ہیں. لینے والے آ رہے ہیں اور لے کر جا رہے ہیں. خواب کے بعد مجھ پر منکشف ہوا کہ کنواں صورت مثال دارالعلوم کی ہے. دودھ صورت مثال علم کی ہے اور قاسم العلوم یعنی تقسیم کندہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں اور یہ آ کر لے جانے والے طلباء ہیں جو حسب ظرف علم لے لے کر جا رہے ہیں. اس کے بعد فرمایا مدرسہ دیوبند میں جب داخلہ ہوتا ہے اور طلباء آتے ہیں تو میں ہر ایک کو پہچان لیتا ہوں کہ یہ بھی اس مجمع میں تھا اور یہ بھی. لیکن اس گستاخ طالب علم پر میں نے سر سے پاؤں تک تین بار نظر ڈالی . یہ اس مجمع میں تھا ہی نہیں اس لیے میں نے وثوق سے کہہ دیا کہ یہ مدرسہ دیوبند کا طالب علم نہیں ہے. اس سے اندازہ ہوا کہ اس مدرسے کے لئے طلباء کا انتخاب بھی من جانب اللہ ہی ہوتا ہے. چنانچہ یہاں نہ اشتہار ہے نہ پروپگنڈا، نہ ترغیبی پمفلٹ کہ طلباء آکر داخل ہوں بلکہ من جانب اللہ جس کے دل قلب میں داخلے کا داعیہ پیدا ہوتا ہے وہ خود کشاں کشاں چلا آتا ہے.
حوالہ جات
1=تاریخ دیوبند از سید محبوب حسین رضوی صفحہ 162 2=ماہنامہ "الرشید " کا دارالعلوم دیوبند نمبر صفحہ 139 تا 140.
3="الہامی مدرسہ" از حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب قاسمی مہتمم دارالعلوم دیوبند

(حضرت مولانا رفیع الدین رحمۃ اللہ علیہ قریباً 19 برس دارالعلوم دیوبند کے مہتمم رہے. 1308ء ہجری 1890ء عیسوی میں مدینہ منورہ میں وصال فرمایا. جنت البقیع میں مدفون ہیں. امی محض تھے نہ لکھنا جانتے تھے نہ پڑھنا. صاحب کشف و واردات اور صاحب کرامات بزرگ تھے. حضرت شاہ عبدالغنی محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ تھے جو جانشین تھے حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے جو بڑے بیٹے تھے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے اور آپ رحمۃ اللہ علیہ کے جانشین بھی تھے.)
4=سیرت النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم بعد از وصال النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم حصہ اول صفحہ 115 تا 116 محمد عبدالمجيد صدیقی ایڈووکیٹ

بدھ، 19 اگست، 2020

کلام ‏فرید

جندڑی لٹی تئیں یار سجن
کدیں موڑ مہاراں تے آ وطن

روہی دے کنڈڑے کالیاں
میڈیاں ڈکھن کناں دیاں والیاں
اساں راتاں ڈکھاں وچ جالیاں
روہی بنائوئی چا وطن

روہی دی عجب بہار دسے
جتھے میں نمانی دا یار ڈسے
جتھاں عاشق لکھ‍ ہزار ڈسے
اتھاں میں مسافر بے وطن

کدی یار فرید آوے ہاں
مینڈی اجڑی جھوک وساوے ہاں
میں روندی کوں گل لاوے ہاں
کیوں جا بنائوئی کیچ وطن

جندڑی لٹی تئیں یار سجن
کدیں موڑ مہاراں تے آ سجن

مطالعہ

*ایک ہی شادی کرنے والے صحابہؓ !!*

کسی نے پوچھا کہ ایسے کسی صحابی کا نام بتائیں جنہوں نے زندگی میں صرف ایک شادی کی ہو؟ 
 تلاش بسیار کے باوجود دماغ کے گوگل سے کوئی جواب نہ بن پایا۔ 
مجبورا کتبِ سیرِ صحابہ کی طرف رجوع کرنا پڑا۔
مگر وہاں بھی ورق گردانی کا سلسلہ طویل تر ہوتا چلا گیا، لیکن کسی ایک بھی ایسے صحابی کا نام سامنے نہیں آیا، جس نے رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد طویل زندگی پائی ہو اور ایک ہی شادی پر اکتفا کیا ہو۔ 
البتہ ایسے کئی اصحابِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام نظر سے گزرے، جنہوں نے پہلی شادی کی اور کچھ عرصے بعد راہِ خدا میں شہید ہوگئے یا قبل از نکاح ہی وہ جام شہادت نوش کر گئے۔ 

*پھر کافی جستجو کے بعد "طویل زندگی پانے والے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے صرف ایک ہستی ایسی ملی، جن کی صرف ایک بیوی ہونے پر مؤرخین نے اتفاق کیا ہے اور وہ ہیں اِس امت کے درویش حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ۔* (نام: جندب بن جنادہ) جن کی وفات تک حضرت ام ذر رضی اللہ عنہا کے علاوہ کوئی بیوی نہیں تھی" 
ان کا طرز زندگی  ہی جمہور صحابہ کرام سے نرالا  اور فقر و زہد اور ترکِ دنیا پر مبنی تھا۔ 
تاہم "بعض مورخین نے حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی لکھا ہے کہ انہوں نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے علاوہ کسی خاتون سے شادی نہیں کی تھی" 
(البدایہ والنہایہ۔ اُسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ)

ان دو حضرات کے علاوہ ایسے کسی اور صحابی کا نام آپ کو معلوم ہو تو مطلع فرمایئے گا۔ جزاکم اللہ......

آج بھی عرب ممالک میں ایک بیوی پر اکتفاء کرنے کو تعجب کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ وہاں آج بھی دو تین شادیاں معمول کا حصہ ہیں۔ 
*غالبا برصغیر کے مسلمانوں میں ایک سے زائد بیوی کو معیوب سمجھنے کی سوچ ہندوؤں کے کلچر سے ملی ہے۔۔۔*

*ابن عباد کہتے ہیں کہ میں کئی ایک ایسے لوگوں سے ملا ہوں جو کہ لوگوں کے حالات زندگی مرتب کرتے ہیں*
 تو جب کوئی شخص فوت ہو جاتا تو وہ یوں لکھتے کہ فلاں شخص فوت ہو گیا اور اس کے نیچے فلاں فلاں تھی یعنی اس کی بیویاں 
*[مات وكانت تحته فلانة وفلانة]۔* 
لیکن جب کسی ایسے شخص کے حالات لکھتے کہ جس کی ایک ہی بیوی ہوتی تھی تو یوں لکھتے تھے کہ فلاں شخص فوت ہو گیا اور اس کے اوپر فلاں تھی یعنی بیوی 
*[مات وترك فوقه فلانة]۔* 

اس قول کا خلاصہ یہ ہے کہ جس معاشرے میں ایک بیوی عام ہو جائے وہ عورتوں کا معاشرہ ہے، مردوں کا نہیں، بنایا ہوا بھی اور چلایا ہوا بھی۔

*ابن سینا کہتے ہیں کہ جس کی ایک ہی بیوی ہو، وہ جوانی میں بوڑھا ہو جاتا ہے۔ اسے ہڈیوں، کمر، گردن اور جوڑوں کے درد کی شکایت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کی مایوسی بڑھ جاتی ہے، محنت کم ہو جاتی ہے، ہنسی اڑ جاتی ہے اور وہ شکوے اور شکایات کا گڑھ بن جاتا ہے یعنی ہر وقت شکوے شکایات ہی کرتا نظر آئے گا۔* 
*قاضی ابو مسعود کہتے ہیں کہ جس کی ایک بیوی ہو، اس کے لیے لوگوں کے مابین فیصلے کرنا جائز نہیں یعنی اس کا قاضی بننا درست نہیں [کہ ہر وقت غصے کی حالت میں ہو گا اور غصے میں فیصلہ جائز نہیں]۔* 
*ابن خلدون کہتے ہیں کہ میں نے پچھلی قوموں کی ہلاکت پر غور وفکر کیا تو میں نے دیکھا کہ وہ ایک ہی بیوی پر قناعت کرنے والے تھے۔*

*ابن میسار کہتے ہیں کہ اس شخص کی عبادت اچھی نہیں ہو سکتی کہ جس کی بیوی ایک ہو۔* 

*عباسی خلیفہ مامون الرشید سے کہا گیا کہ بصرہ میں کچھ لوگ ایسے ہیں کہ جن کی ایک ہی بیوی ہے۔ تو مامون الرشید نے کہا کہ وہ مرد نہیں ہیں۔ مرد تو وہ ہیں کہ جن کی بیویاں ہوں۔ اور یہ فطرت اور سنت دونوں کے خلاف چل رہے ہیں۔*
*ابن یونس سے کہا گیا کہ یہود و نصاری نے تعدد ازواج یعنی ایک زائد بیویاں رکھنا کیوں چھوڑ دیا۔ انہوں نے جواب دیا، اس لیے کہ اللہ عزوجل ذلت اور مسکنت کو ان کا مقدر بنانا چاہتے تھے۔*

*ابو معروف کرخی سے سوال ہوا کہ آپ کی ان کے بارے کیا رائے ہیں جو اپنے آپ کو زاہد سمجھتے ہیں لیکن ایک بیوی رکھنے کے قائل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ زاہد نہیں بلکہ مجنون ہیں۔ یہ ابوبکر وعمر اور عثمان وعلی رضی اللہ عنہم کے زہد کو نہیں پہنچ سکے۔*
*ابن فیاض سے ایسے لوگوں کے بارے سوال ہوا کہ جن کی ایک ہی بیوی ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ وہ مردہ ہیں، بس کھاتے پیتے اور سانس لیتے ہیں۔* 
*والی کرک ابن اسحاق نے پورے شہر میں مال تقسیم کیا لیکن ایک بیوی والوں کو کچھ نہ دیا۔ جب ان سے وجہ پوچھی گئی تو کہا کہ اللہ عزوجل نے سفہاء یعنی ذہنی نابالغوں کو مال دینے سے منع کیا ہے [کہ وہ اسے ضائع کر دیتے ہیں]۔*

*ابن عطاء اللہ نے ایک بیوی رکھنے والوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم ان کو بڑا کیسے سمجھ لیں کہ جنہوں نے اپنے بڑوں کی سنت کو چھوڑ دیا یعنی صحابہ کی سنت کو۔* *حصری کہتے ہیں کہ جب اللہ نے شادی کا حکم دیا تو دو سے شروع کیا اور کہا کہ دو دو، تین تین اور چار چار سے شادیاں کرو۔ اور ایک کی اجازت ان کو دی جو خوف میں مبتلا ہوں۔* 
*تقی الدین مزنی سمرقند کے فقیہ بنے تو ان کو بتلایا گیا کہ یہاں کچھ لوگ ایک بیوی کے قائل ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ کیا وہ مسلمان ہیں؟*
*پھر اہل شہر کو وعظ کیا تو اگلے چاند سے پہلے تین ہزار شادیاں ہوئیں اور شہر میں کوئی کنواری، مطلقہ اور بیوہ نہ رہی۔

پیر، 21 اکتوبر، 2019

نعت عبد الرحمن جامی

گل از رخت آموختہ نازک بدنی را
گلاب نے تیرے چہرے سے نزاکت کا درس لیا ہے۔
بلبل زتو آموختہ شیریں سخنی را
بلبل نے تیرے تکلم سے شیریں کلای سیکھی ہے۔
ہر کس کہ لبِ لعل ترا دیدہ بہ دل گفت
جس نے بھی تیرے لعل گوں لب دیکھے تو دل (کی آواز) سے کہا
حقا کہ چہ خوش کندہ عقیقِ یمنی را
یقینا" اس یمنی عقیق کو بہت خوبصورتی سے تراشا گیا ہے۔
خیاطِ ازل دوختہ بر قامتِ زیبا
آزل کے خیاط نے تیری خوبصورت قامت پر۔۔۔
در قد توایں جامۂ سروِ چمنی را
سرو ِ سمن کا حسین جامہ تیار کیا ہے۔(غالبا" شعر میں سرو سمن ہے)
در عشقِ تو دندان شکستہ است بہ الفت
تیرے عشق میں اپنے دانت گنوادیئے
تو جامہ رسانید اویسِ قرنی را
تو آپ نے اوایس قرنی کو جامہ ارسال کیا
ازجامیِ بے چارا رسانید سلامے
بے چارے جامی کی طرف سے سلام پہنچادو
بر درگہِ دربارِ رسولِ مدنی را
رسول مدنی کے دربار کے حضور۔

اتوار، 20 اکتوبر، 2019

نعت خواجہ عبد الغفار نقشبندی

خواجہ عبدالغفار نقشبندی مجددی فضلی المعروف پیر مٹھا، 1384ھ

حضرت محمد عبد الغفار فضلی نقشبندی مجددی رحمتپوری رحمۃ اللہ علیہ نے مندرجہ فریاد لکھی ہے جس میں اردو، ہندی، سرائیکی، فارسی اور عربی کا حسین امتزاج ہے:

ز عصیاں رُو سیاہ کردم، اغثنی یا رسول اللّٰه!
ہے تکیہ آپ کا ہر دم، اَغثنی یا رسول اللّٰه!

توئی شافی توئی کافی کرو میری خطا معافی
ز کردۂ خود پشیمانم اَغِثنی یا رسول اللّٰه!

کوئی کہتا ہے بد خویم، تجھے معلوم کیا گویم
رہائی دہ ز آزارم اَغِثنی یا رسول اللّٰه!

عَذَابُ السَّقَرِ مُوصَدَۃٌ فَاِنَّ النَّارَ مُوقَدَۃٌ
فَاِنَّکَ لَا تَذَر فَردًا اَغِثنی یا رسول اللّٰه!

جہاں سارے دے وچ جانی نہیں کوئی تیرا ثانی
توئی افضل توئی اکرم اَغِثنی یا رسول اللّٰه!

عن الاوجائی یعصمنی ،فلیس من ورىک لی
بسے امیدها دارم اَغِثنی یا رسول اللّٰه!

سنو کھاجہ موری جاری، میں پاپن ہوں دُکھاں ماری
خدارا بس بزاہ گارم اَغِثنی یا رسول اللّٰه!

لکھاں ݙُکھڑے کُھٹݨ دے نہیں، زخم اُلڑے چُھٹݨ دے نہیں
ݙِکھا یک بار دیدارم اَغِثنی یا رسول اللّٰه!

ذرا روئے دکھا جانا، جنازے میں تو آ جانا
قبر میں توں رکھیں پِرتم اَغِثنی یا رسول اللّٰه!

(حضرت) عبدُ الغفّار گریانم بفرقت سینہ بریانم
وَنجایو مونجھ تے ہر غم اَغِثنی یا رسول اللّٰه!

بدھ، 16 اکتوبر، 2019

حال دل کس کو سنائیں

حالِ دل کس کو سنائیں آپ ﷺ کے ہوتے ہوئے

کیوں کسی کے در پہ جائیں آپ ﷺ کے ہوتے ہوئے


میں غلام مصطفی ﷺ ہوں یہ مری پہچان ہے

غم مجھے کیوں کر ستائیں آپ ﷺ کے ہوتے ہوئے


شانِ محبوبی دکھائی جائے گی محشر کے دن

کون دیکھے گا خطائیں آپ ﷺ کے ہوتے ہوئے


زلفِ محبوب خدا لہرائے گی محشر کے دن

خوب یہ کس کی گھٹائیں آپ ﷺ کے ہوتے ہوئے


میں یہ کیسے مان جاؤں شام کے بازار میں

چھین لے کوئی ردائیں آپ ﷺ کے ہوتے ہوئے


اپنا جینا اپنا مرنا اب اسی چوکھٹ پہ ہے

ہم کہاں سرکار جائیں آپ ﷺ کے ہوتے ہوئے


کہہ رہا ہے آپ کا رب "اَنتَ فِیھِم" آپ سے

میں انہیں دوں کیوں سزائیں آپ ﷺ کے ہوتے ہوئے


یہ تو ہو سکتا نہیں ہے یہ بات ممکن ہی نہیں

میرے گھر میں غم آ جائیں آپ ﷺ کے ہوتے ہوئے


کون ہے الطاف اپنا حال دل کس سے کہیں

زخم دل کس کو دکھائیں آپ ﷺ کے ہوتے ہوئے


ہفتہ، 12 اکتوبر، 2019

قانون مفرد اعضاء

جب جسم میں ایک ہی خلط بنتی رہتی ہے تو وہ خلط اپنے متعلقہ مقامات پر جمع ہونی شروع ہو جاتی ہے اور پھر وہاں پر رگڑ کھا کر گزرتی ہے اور یہی رگڑ تمام فساد پیدا کرتی ہے

سردی سے چیزیں سکڑتی ہے
گرمی سے پھیلتی ہیں
اور تری سے پھولتی ہیں

اب سمجھ لیں کہ ہر عضو میں سکیڑ کیسے آئے گا
قانون فطرت ہے
کہ

گرمی کے بعد تری آتی ہے
تری کے بعد سردی آتی ہے
سردی کے بعد خشکی آتی ہے

اور یہی خشکی سردی کی انتہا ہے
اور اسی خشکی سے عضو سکڑتا ہے

اب آپ کاربن کا فلسفہ سمجھ لیں
کہ کاربن کس طرح پیدا ہوتی ہے یہی کاربن سکیڑ پیدا کرتی ہے

رگڑ کو سمجھ لیں
جب خلط جمع ہو گی چاہے کوئی بھی ہو
وہاں رگڑ پیدا ہو گی
رگڑ سے حرارت پیدا ہو گی
اس حرارت سے وہاں بجلی بنے گی
وہ بجلی اخلاط میں موجود آکسیجن کو جلا کر راکھ کر دے گی یہ راکھ کاربن ہے اور کاربن کا مزاج خشک سرد ہے
یہ سکیڑ کا فلسفہ ہے
اور یہ سکیڑ کسی بھی عضو میں پیدا ہو سکتا ہے
سکیڑ ہمیشہ سردی سے ہوتا ہے
سردی کی انتہا خشکی ہے

جب عضلات سکڑیں گے
غدد پھول جائیں گے
اعصاب پھیل جائیں گے

جب غدد سکڑیں گے
اعصاب پھول جائیں گے
عضلات پھیل جائیں گے

جب اعصاب سکڑیں گے
عضلات پھول جائیں گے
غدد پھیل جائیں گے

خشکی سے سکڑنا
رطوبات سے پھولنا
گرمی سے پھیلنا

یہی سارا فلسفہ ہے
اس کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے